ایران اسرائیل جنگ یا نورا کُشتی!!!

0
95
جاوید رانا

قارئین کرام! امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہونگے اور اپنے عزیز و اقارب اور احباب کیساتھ عید الفطر کی خوشیاں سمیٹنے کے بعد معمولات زندگی میں مصروف ہونگے۔ عید سے ایک روز قبل میرے بڑے بھائی فیصل آباد میں بہ رضائے الٰہی دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہم بھائیوں کیلئے وہ والد کی جگہ تھے، اللہ رب کریم سے دعا ہے کہ ان کی بخشش و مغفرت فرمائے اور اعلیٰ علین میں جگہ مرحمت فرمائے، آمین۔ قارئین سے بھی التماس ہے کہ میرے بھائی رانا پرویز خان کیلئے دعائے مغفرت و اعلیٰ درجات فرمائیں۔
ہفتہ رفتہ یوں تو عید الفطر کے حوالے سے مسلمانان عالم کیلئے خوشی، ملاپ اور خیر سگالی سے مرتب رہا تاہم عید کے ایام میں بھی غزہ (فلسطین) اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام پر اسرائیلی و بھارتی حکومتوں و افواج کی بربریت اور قتال میں کوئی کمی نہ آئی۔ مسلم اُمہ کو نہ صرف نماز عید کی ادائیگی سے محروم رکھا گیا بلکہ غزہ و بیت المقدس اور دیگر فلسطینی علاقے اسرائیلی مظالم و بمباری کے سبب معصوم بچوں، خواتین و بزرگوں سمیت ہلاکتوں بلکہ شہادتوں سے بھی دوچار رہے، اب تک 39 ہزار شہادتوں اور 70 ہزار مضروبیات کی خبریں آچکی ہیں۔
14 اپریل کو ایران کی جانب سے اسرائیل پر 300 ڈرونز اور بیلسٹک و کروز میزائلوں سے کیا جانیوالا حملہ امریکہ، برطانیہ و یورپی ممالک کیلئے پریشانی و خطے میں کشیدگی کا سبب تو بنا ہی تھا خود اسرائیل کیلئے بھی خوف و دہشت کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ایران کے موجودہ رہنما علی خمینی، وزیر خارجہ و فوجی سربراہ کے مطابق اسرائیل پر یہ حملہ دمشق میں یکم اپریل کو ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی فضائیہ کے حملے اور فوجی ذمہ داروں سمیت شہادتوں کے رد عمل بلکہ جواب میں کیا گیا ہے۔ دس گھنٹے تقریباً جاری رہنے والی اس صورتحال کے بارے میں قارئین دنیا بھر کے چینلز کے توسط سے یقیناً آگہی حاصل کر چکے ہیں کہ ایران کے ڈرونز اور میزائلوں کے مقابلے میں اردن سے امریکی و برطانوی جہازوں نے کیا کردار ادا کیا، اسرائیل کا دفاعی نظام کتنا کارگر رہا، کس طرح صدر جوبائیڈن نے اپنی تعطیلات معطل کر کے وائٹ ہائوس میں امریکی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس منعقد کیا، کس طرح برطانیہ، فرانس اور دیگر اسرائیلی حامی ملکوں میں تھرتھلی برپا رہی۔ کہا جا رہا تھا کہ موجودہ صورتحال خطے کی کشیدگی کو مزید بگاڑ سکتی ہے بلکہ عالمی امن کی تباہی اور عالمگیر جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ ہوا یہ کہ دس گھنٹے کے اس ہنگام میں صرف ایک اسرائیلی بچہ زخمی ہوا۔
باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ حملے کا تماشہ محض اس لئے رچایا گیا تھاکہ اسرائیل 7 اکتوبر سے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کے اوپر مظالم ڈھا رہا ہے اور جس طرح دنیا بھر میں اس کی ذلت و رسوائی ہونے کیساتھ فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، امریکہ اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر اسرائیل کی حمایت کر رہا تھا حتیٰ کہ امریکی نمائندگان کی قراردادوں سے بھی منکر ہو رہا تھا لہٰذا عالمی توجہ ہٹانے کیلئے یہ کھیل کھیلا گیا۔ اس مؤقف کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے سوال ذہن میں آتے ہیں۔ یکم اپریل کو ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کا جواب دینے پر دو ہفتے کا وقت اسرائیل پر حملے سے 72 گھنٹے پہلے امریکہ، برطانیہ، فرانس، یورپی یونین کو ایرانی صدر و حکام کی جانب سے اپنے دوست ممالک کے ذریعے حملہ کرنے کی آگاہی، صدر بائیڈن کا دو دن قبل ایران کے حملے کا اظہار کیا اسرائیل کو حفظ ماتقدم کرنے کا اشارہ نہیں تھا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا اسرائیل کے شام میں حملے اور ایرانی اہلکاروں کے مارے جانے سے امریکہ اندھیرے میں تھا اور کیا ایران کے بار بار جوابی حملہ کرنے کے اعلان کے بعدبھی امریکی انتظامیہ اس ہونیوالے وقوعہ کو روکنے کا اقدام نہیں کر سکتی تھی۔ سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ مسلسل جوابی حملے کے اعلان کے تناظر میں اسرائیل نے دنیا کے بہترین دفاعی نظام کے سبب تمام مطلوبہ انتظام کر لئے ہونگے، یقینا ایسا ہواگا تو پھر یہ سب کیوں کیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ایران عرصہ دراز سے عالمی پابندیوں بالخصوص امریکہ، مغربی دنیا اور دیگر امریکی زیر اثر ممالک کے سبب مشکلات کے باوجود اپنی معیشت کے حوالے سے زندہ ہے تو ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی عالمی سیاست کی بساط پر کیوں دخل انداز ہو رہا ہے جبکہ وہ تمام قوتیں اور ممالک و ادارے اسرائیل کے حامی ہیں جو ایران کی مخالفت میں ہیں۔ اگر یہ حملہ محض قونصل خانے پر حملے کے جواب میں تھا تو اس کا الم نشرح کرنے کی کیا ضرورت تھی خصوصاً ایسے وقت میں کہ جب اسرائیل کی حمایت میں اُچھلتے کودتے بائیڈن کو الیکشن مہم میں زور پکڑنے اور صہیونی امریکنوں کی حمایت حاصل کرنے میں معاون بنائے۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بائیڈن کی الیکشن جیتنے کیلئے محاذ آرائی خصوصاً مشرق وسطیٰ میں جنگی کیفیت اس کی جیت کا راستہ بنتی ہے جس طرح مودی کی پاکستان کیخلاف پالیسی بنتی ہے۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ صدر جوبائیڈن کے حکم پر ایک جانب اسرائیل نے جوابی اقدام سے گریز پر اتفاق کر لیا تو دوسری جانب ایران نے اعلان کر دیا کہ اس نے اپنا بدلہ لے لیا ہے اور اگر اسرائیل نے کوئی جارحیت نہ کی تو ہم کوئی مزید اقدام نہیں کرینگے۔
کیا ہمارا یہ تجزیہ درست نہیں کہ تمام تر پابندیوں، سختیوں اور مشکلات کے باوجود ایرانی معیشت کا زندہ رہنا اور اٹھکیلیاں انکل سام کی عنایت کی وجہ سے ہیں کہ ایک جانب بھارتی ایجنٹوں کی پاکستان کیخلاف سرپرستی، سرحدی خلاف ورزیاں، دوسری جانب فلسطین کے مسئلے کو اسرائیل سے ڈرامہ رچا کر دھندلانا ہمارے تجزیہ کی شہادت ہے یعنی نورا کشتی اور کچھ نہیں۔ ہم تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایران کے اس کی مخصوص پالیسیوں کے جاری رکھنے اور مشرق وسطیٰ کی سیاسی بدحالی کے عیوض انکل سام سے حق خدمت بھی ملنے کے روابط و تعلق اور لڑائی پنجابی شعر کے مطابق!(وچوں وچوں کھائی جا،تے اُتے رولا پائی جا) ہی ہے اور دنیا کو غلط تصویر دکھانا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here