قارئین عید کا سماں گزر چکا ہے۔ اور اب رمضان اور عید کے بعد سب لوگ اپنے روزمرہ کے معمولات میں واپس آرہے ہیں۔ یہ ہفتہ اور اتوار عید کی پارٹیاں ہوتی رہیں اور ہم سب کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیئے کے وہ رمضان میں رزق کے دروازے ایسے کھول دیتا ہے کہ وہ کوئی بھی ملک ہو لوگوں کو پیٹ بھر کر نہ صرف کھانا ملتا ہے بلکہ دنیا کی ہر نعمت ملتی ہے۔ امریکہ میں رمضان میں نہ صرف تمام مساجد بھری رہیں بلکہ ان میں سے بیشتر مساجد میں کھانے کا انتظام بھی رہا۔ اسی طرح پاکستان میں جگہ جگہ افطاری اور جوس وغیرہ بٹتے نظر آئے۔ دوسرے ممالک مصر، سعودی عرب وغیرہ میں تو بہت ہی دل کھول کر کھانا پینا بانٹتے ہیں۔ مخیر حضرات بنگلہ دیش میں بھی یہی حال رہا رمضان میں غریب امیر سب ہی دل کھول کر ایک دوسرے کو دیتے لیتے ہیں۔ مگر رمضان ختم ہونے کے بعد بہت ہی کم ایسا دیکھنے میں آیا ہے کے امیر لوگ غریبوں کو کھانا بانٹ رہے ہوں بلکہ امیر لوگوں کے ہاں دوسرے کھاتے پیتے گھرانے ہی عید پر نظر آتے ہیں بلکہ بلایا ہی ان لوگوں کو جاتا ہے جو خوشحال ہوتے ہیں۔ غریب رشتہ داروں اور دوستوں کو ایسے موقع پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ ان کو صرف اس وقت پوچھا جاتا ہے جب رمضان ہوتے ہیں زکواة خیرات دینے کے لئے تاکے ثواب زیادہ سے زیادہ ملے۔ مگر رمضان کے بعد ان کو نظرانداز کرکے صرف اپنے سٹیٹس کے لوگوں کو ہی بلایا جاتا ہے۔ اور غریب رشتہ دار بھی یہ سوچ کر صبر کر لیتے ہیں۔ کے ان کو امیر رشتہ دار اتنا ہی پوچھ لیتے ہیں کے ان کا مسئلہ پیسے سے حل کر دیتے ہیں۔ کسی کی چھت مرمت کرا دی تو کسی کو پنکھا دلا دیا یہ اچھی بات ہے کے ہم اپنے غریب رشتہ داروں کے بارے میں سوچیں اور ان کے کام آئیں کیونکہ کوئی کتنا ہی امیر ہو اس کے کچھ نہ کچھ کہیں نہ کہیں غریب رشتہ دار تو ہوتے ہیں ان کے کام آکر بے شک ہم نیکی کماتے ہیں مگر ان کو اعتماد دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ان کو اپنے گھر دفتاً فوقتاً بلانا۔ عام انداز میں بغیر کچھ جتائے دعوت کرنا۔ اپنے برابر سمجھنا بھی ہمارے فرائض میں ہے۔ ہم اپنے غریب رشتہ داروں سے اکثر ناراض بھی ہوتے ہیں۔ کے وہ کچھ کام کاج نہیں کرتے ہیں اور مانگنے کے لئے آجاتے ہیں پیسے دو تو دوچار دن میں اڑا دیتے ہیں۔ اکثر لوگوں کے غریب رشتے دار غریب محلوں میں ہی آباد ہوتے ہیں ان کے اردگرد کا ماحول ہی ایسا ہوتا ہے کے وہ کوئی اچھا مثبت کام نہیں سوچ سکھتے۔ ایسے میں ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو اس ماحول سے نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو کوئی اچھا ہنر سکھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور ان تمام باتوں کے لئے وقت چاہئے ہوتا ہے اگر ہم کسی کو وقت دیں اور اس کا ٹیلنٹ جاننے کی کوشش کریں تو ہم اس کے زیادہ کام آسکتے ہیں بجائے اس کے کے ہم جلدی سے زکواة خیرات کے پیسے اسے تھما کر جلدی سے نیکی کمانے کی کوشش کریں میں نے تو اس رمضان کے بعد ہی سیکھا ہے کے جہاں ہم اور چیزوں کے لئے وقت نکالتے ہیں اپنے غریب رشتہ دار کے لئے بھی وقت نکالیں۔ ان کو عید کی خوشیوں میں شریک کریں اور ان کی عملی طور پر مدد کریں۔
٭٭٭٭