نیویارک (پاکستان نیوز)کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشن(کیئر ) نے قومی سطح پر کرائے گئے سروے کے دوران پیشگوئی کی ہے کہ اس مرتبہ انتخابات کے دوران مسلم ووٹرز کا ٹرن آﺅٹ تاریخی ہوگا ، 71فیصد مسلم ووٹرز جوبائیڈن کو سپورٹ کریں گے اور18فیصد ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیں گے جبکہ 59فیصد مسلم ووٹرز سمجھتے ہیں کہ اس مرتبہ الیکشن میں بائیڈن کامیابی حاصل کریں گے اور14فیصد مسلم ووٹرز کا خیال ہے کہ اس مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ فاتح رہیں گے ۔21فیصد مسلم ووٹرز کے مطابق وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اس مرتبہ انتخابات کے دوران کونسا امیدوار کامیاب ہوگا ، 89فیصد رجسٹرڈ مسلم ووٹرز نے انتخابات کے لیے3نومبر کو ووٹ ڈالنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے جبکہ صرف 5فیصد مسلم ووٹرز نے ووٹ ڈالنے کے حوالے سے اپنی رائے کو مبہم قرار دیا ہے ، 18فیصد مسلم ووٹرز نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو سپورٹ کریں گے ، کیئر کی جانب سے منعقدہ لائیو ٹیلی فون سروے کے دوران 846مسلم ووٹرز نے اپنی رائے کا اظہار کیا ،کیئر کی جانب سے 2018میں کرائے گئے سروے کے مقابلے میں رواں برس ڈیموکریٹس کے حامیوں کی تعداد میں 12فیصد کمی واقع ہوئی ہے ،2018میں ڈیموکریٹس کے حامیوں کی تعداد 78فیصد جبکہ رواں برس 66فیصد کے قریب رہی ہے جبکہ ری پبلیکن پارٹی کے حمایتی مسلم ووٹرز کی تعداد میں 2فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ، رواں برس ری پبلکن کے حامیوں کی تعداد 19فیصد رہی ہے جوکہ 2018میں 17 فیصد تھی ، سروے کے دوران 42فیصد مسلم ووٹرز نے سماجی مسائل پر خود کو کنزرویٹو اور 37فیصد نے خود کو لبرل ظاہر کیا ہے ،65فیصد مسلم ووٹرز کو یقین ہے کہ ڈیموکریٹس کی جماعت مذہبی آزادی کا زیادہ تحفظ کرتی ہے جبکہ اس حوالے سے 19فیصد مسلم ووٹرز ری پبلیکنز کو زیادہ موضوع قرار دیتے ہیں ، 72فیصد مسلم ووٹرز ڈیموکریٹس کو ہیلتھ کیئر کے حقوق کے تحفظ کا ضامن سمجھتے ہیں جبکہ اس حوالے سے 15فیصد مسلم ووٹرز ری پبلکنز کو بہترین قرار دیتے ہیں ، 72فیصد مسلم ووٹرز کا خیال ہے کہ ڈیموکریٹس تمام تارکین کے ساتھ مساوی سلوک رکھتے ہیں جبکہ 15فیصد کا خیال ہے کہ ری پبلیکن اس میں زیادہ بہتر ہیں ۔سروے کے دوران 45فیصد مسلم ووٹرز نے اس بات کا اظہار کیا کہ ڈیموکریٹس مسلمانوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ ہیں جبکہ 44فیصد نے اس امر کو قدرتی قرار دیا اور 14فیصد کے مطابق ڈیموکریٹس مسلمانوں کے لیے دوستانہ نہیں ہیں ۔61فیصد مسلمان ووٹرز کا خیال ہے کہ ری پبلیکن پارٹی مسلمانوں کے ساتھ دوستی نہیں رکھتی ہے 24فیصد کا خیال ہے کہ ری پبلکنز مسلمانوں کے حوالے سے غیرجانبدار ہیں اور 16فیصد نے ری پبلکن کو مسلمانوں کا دوست قرار دیا ہے ۔ اس سوال کے جواب میں کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز واقعات میں اضافہ ہوا ہے 67فیصد ووٹرز نے ہاں میں جواب دیا جبکہ 15فیصد کا خیال تھا کہ ان واقعات میں کمی ہوئی ہے اور 18فیصد نے اس سوال کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا ، کیئر میں حکومتی امور کے ڈائریکٹر رابرٹ ایس میکا نے کہا کہ ہمارے سروے میں یہ بات یقینی ہوئی کہ اس مرتبہ صدارتی انتخابات میں مسلمانوں کی بڑی تعداد ووٹ ڈالے گی جبکہ اکثریت صدارتی امیدوار جوبائیڈن کی حامی ہے۔مسلم ووٹرز کے ساتھ امریکہ میں انتخابات کو عالمی سطح پر بھی اتنہائی اہم قرار دیا جاتا ہے اور امریکی انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ کے مطابق روس ، چین اور ایران انتخابات پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کریں گے تاکہ اپنے حمایتی امیدوار کو انتخابات میں فتح دلوائی جا سکے ، انٹیلی جنس کی اعلیٰ قیادت نے انتباہ کیا ہے کہ بیرونی طاقتیں ’کھل کر یا ڈھکے چھپے انداز میں‘ امریکی ووٹروں کو کسی ایک امیدوار کو ووٹ دینے کی جانب راغب کریں گی، بیرونی طاقتوں سے ان کی مراد روس، چین اور ایران ہیں۔امریکہ کے انتخابی نظام پر نظر دوڑائیں تو اس وقت دو طرح کے ووٹس انتخابی نظام کی نمائندگی کرتے ہیں جس میں ایک الیکٹورل ووٹس ہیںجن کی تعداد 538ہے اور دوسرے پاپولر ووٹس ہیں ، پاپولر ووٹس وہ ووٹ ہوتے ہیں جوکہ عوام براہ راست صدارتی امیدواروں ، ان کی جماعتوں اور حامیوں کو کاسٹ کرتے ہیں جبکہ الیکٹورل ووٹس وہ ہوتے ہیں جوکہ مختلف ریاستوں کو آبادی کے تناسب سے تفویض کیے جاتے ہیں ، وہی صدارتی امیدوار کامیاب کہلاتا ہے جوکہ270یا اس سے زائد الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اسی لیے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ امریکی انتخابات 3 نومبر کی بجائے 14دسمبر کو ہوتے ہیں کیونکہ 14 دسمبر کو ہی مختلف ریاستوں کو تفویض کردہ الیکٹورل ووٹوں کو حتمی شکل دی جاتی ہے ،گزشتہ انتخاب کی بات کی جائے تو لوگوں کی بڑی تعداد نے ہیلری کلنٹن کو ووٹ دیئے یعنی ہیلری کلنٹن کے حق میں پاپولر ووٹس کی تعداد ٹرمپ کے مقابلے میں زیادہ تھی لیکن ٹرمپ کو الیکٹورل ووٹ زیادہ ملے اس لیے ان کو فاتح قرار دیا گیا ۔