نیویارک (پاکستان نیوز)بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی، نفرت آمیزی اور تعصب پسندی خطرناک صورتحال اختیار کر چکی ہے، مسلمانوں پر تشدد، بدسلوکی اور اقلیتوں کا قتل عام معمولی بات بن کر رہ گئی ہے، شیو سینا ، بی جے پی سمیت دیگر انتہا پسند جماعتوں نے اپنی انتہا پسند سوچ کو پھیلانے کے لیے آن لائن ٹول بھی استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور اس سلسلے میں فیس بک کی خدمات لی جا رہی ہیں، یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بی جے پی بھارت میں فیس بک کو کنٹرول کر رہی ہے، بھارت میں مسلمان خواتین کو آن لائن ایپ کے ذریعے فروخت کرنے کا معاملہ بھی اسی وجہ سے سر اٹھایا ہے،عالمی سطح پر تنقید کے بعد اس ایپ کو بند کرنے کے ساتھ ملوث افراد کو بھی حراست میںلیا گیا ہے، بھارت میں سیاسی جماعتوں کے فیس پر بڑھتے اثرو رسوخ کی اطلاعات کے بعد فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا کی جانب سے اس سلسلے میں آڈٹ کرایا گیا تھا ، واشنگٹن پوسٹ کے مطابق بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، تعصب پسندی اور نفرت آمیز واقعات کی تحقیقات کے لیے قانونی فرم ”ہوگ فولے” کی خدمات حاصل کی گئی تھیں،تنظیم کی جانب سے چھ ماہ کی آزادانہ تحقیقاتی رپورٹ فیس بک کو فراہم کردی گئیں لیکن میٹا کمپنی کی جانب سے اس رپورٹ کو پبلک نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس رپورٹ تک رسائی دی جا رہی ہے ، انسانی حقوق کی 20 سے زائد تنظیموں نے آڈٹ رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ فیس بک کی سابقہ ڈیٹا سائنسدان وِسل بلور سوفی ژانگ نے ریئل فیس بک اوور سائٹ بورڈ اور انڈیا سول واچ انٹرنیشنل کے زیر اہتمام ایک آن لائن بریفنگ میں انکشافات کیا کہ بھارت میں سیاسی کھیل عروج پر ہے جس کی وجہ سے عوام پر برُے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، ڈیٹا سائنسدان کے مطابق جب انھوں نے بھارت میں جعلی اکائونٹس کے متعلق آواز بلند کی تو بی جے پی ایم پی ملوث پایا گیا لیکن اس کا نام سامنے نہیں آ سکا، فیس بک نے آڈٹ رپورٹ کے ذریعے بی جے پی کی مجرمانہ سرگرمیوں کے متعلق تمام تفصیلات حاصل کر رکھی ہیں لیکن ان کو پبلک نہیں کیا جا رہا ہے ، فیس بک کے ذریعے بھارت میں منافرت ، نفرت اور مذہبی تفریق کو بڑھایا جا رہا ہے ، فیس بک بی جے پی رہنماوں کی منافرت انگیز تقریروں کے خلاف ‘تجارتی مجبوریوں کے سبب’ کارروائی نہیں کرتی ہے ،امریکی سوشل میڈیا کمپنی فیس بک نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمپنی منافرت انگیز تقریروں یا تشدد کو فرو غ دینے والے مواد پر پابندی عائد کرتی ہے اوراس پالیسی کو عالمی سطح پر نافذ کرتے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کا تعلق سیاسی حالات یا کسی سیاسی جماعت سے ہے۔امریکا کے موقر اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں الزام لگایا تھا کہ امریکی میڈیا کمپنی فیس بک بھارت میں حکمراں ہندو قوم پرست جماعت کے رہنماوں کے تئیں کافی فراخ دل ہے۔ وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنماوں کے ‘ہیٹ اسپیچ’ والی پوسٹس کے خلاف کارروائی کرنے میں جان بوجھ کر تساہلی سے کام لیتی ہے او ریہ اسی وسیع منصوبے کا حصہ تھا جس کے تحت فیس بک اور واٹس ایپ نے بی جے پی اور شدت پسند ہندووں کی حمایت کی۔وال سٹریٹ جرنل کے مطابق فیس بک کی بھارت میں عوامی پالیسی سے متعلق کمیٹی کے چوٹی کے افسران نے حکمراں بی جے پی کے کم از کم چار افراد اور اس کی تنظیموں کے خلاف ‘نفرت انگیز پوسٹس کے متعلق مقررہ ضابطوں کو نافذ کرنے کی مخالفت کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ افراد یا تنظیمیں تشدد بھڑکانے میں ملوث تھے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فیس بک انڈیا کی پبلک پالیسی ڈائریکٹرانکھی داس نے اپنے اسٹاف کو مبینہ طوربتایا تھا کہ بی جے پی کے رہنماوں کے ہیٹ اسپیچ کے خلاف کارروائی کرنے سے بھارت میں کمپنی کے کاروبار پر اثرے پڑے گا۔فیس بک سمیت دیگرسوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مسلسل ایسے الزامات عائد کیے جارہے ہیں کہ وہ’فیک نیوز’ اور ‘ہیٹ اسپیچ’ کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہی ہے۔ بی جے پی کے حوالے سے نئے انکشاف کے بعد فیس بک کی معتبریت پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعت کانگریس کے کئی رہنماوں نے فیس بک پر سنگین الزامات لگائے ہیں جبکہ بائیں بازو کی جماعت مارکسی کمیونسٹ پارٹی نے بھی فیس بک پر انتخابی امورمیں جانبداری کا الزام لگایا۔کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق صدر راہول گاندھی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا”بھارت میں فیس بک اور وہاٹس ایپ پر بی جے پی اور آر ایس ایس کا قبضہ ہے۔ یہ اس کے ذریعے فیک نیوز اور نفرت پھیلاتے ہیں۔ یہ الیکشن کو متاثر کرنے میں بھی ان کا استعمال کرتے ہیں، آخر کار امریکی میڈیا میں فیس بک کے بارے میں سچائی سامنے آہی گئی۔انسانی حقوق کی تنظیمیں فیس بک سے مطالبہ کرر ہی ہیں کہ وہ بھارت میں انتہا پسندی کے حوالے سے اپنی آڈٹ رپورٹ کو مکمل کرتے ہوئے پبلک کرے تاکہ دنیا بھارت کا گھنائونا چہرہ دیکھ سکے، دی ٹیلی گراف کے سوالات کے جواب میں، میٹا کی انسانی حقوق کی پالیسی کے ڈائریکٹر مرانڈا سیسن نے ایک ای میل میں کہا کہ اس کام کی پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے، ہم چاہتے ہیں کہ یہ جائزے مکمل ہوں،سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس کی ایک کارکن اور صحافی تیستا سیٹلواد نے ویبینار کے دوران کہااگر فیس بک کارروائی نہیں کرتا ہے تو اب کیا ہوگا؟بھارت میں فیس بک کے 463 ملین صارفین ہیں،نیز لاکھوں واٹس ایپ اور انسٹاگرام صارفین ایسے پلیٹ فارمز جو فیس بک کی ملکیت ہیں اور نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں کو چلا رہے ہیں ،دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ظفرالاسلام خان نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، خاص طور پر فیس بک، نفرت کو عام، مقبول اور ملک میں ہر جگہ قابل رسائی بنانے میں بہت زیادہ ذمہ دار ہے، مجھے تشویش ہے کہ 2024 کے عام انتخابات سے پہلے کسی بھی وقت نسل کشی کی کوشش ہو سکتی ہے، اور اس جرم میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بہت زیادہ استعمال کیا جائے گا۔