نیویارک (پاکستان نیوز) پاکستان سے افغانستان کو ڈالر کی سمگلنگ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ، اس وقت پاکستان سے 2 ارب ڈالر ماہانہ افغانستان منتقل کیے جا رہے ہیں، کرنسی ڈیلرز کی تنظیم ‘پاکستان کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن’ کے چیئرمین ملک بوستان نے کہا ہے حکومتی اعلانات کے باوجود پاکستان میں امریکی ڈالر کی قیمت نہ گرنے کی بڑی وجہ ڈالر کی افغانستان سمگلنگ اور دوست ممالک سے قرض نہ ملنا ہیں۔ملک بوستان نے کہا کہ افغانستان پر تاحال پابندیاں ہیں اور وہاں ڈالر کا کوئی اور ذریعہ نہیں اور ان کی تجارت مکمل طور پر ڈالر سے ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں افغانستان میں ڈالر کی قیمت 20 روپے زیادہ ہے اور اس لیے بہت بڑی تعداد میں امریکی ڈالرز غیرقانونی طریقے سے افغانستان جا رہے ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے کہا: ‘ڈالر کی افغانستان سمگلنگ پر مکمل قابو پانے کے علاوہ افغانستان کی تجارت افغانی کرنسی یا پاکستانی روپے میں کرنے سے ڈالر کی قیمت نیچے لائی جا سکتی ہے۔ملک بوستان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ریاست کی پالیسی ہے کہ (اپنا) ملک تباہ ہو جائے لیکن افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات خراب نہیں کرنے، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔جمعرات کو انٹربینک میں کاروبار کے اختتام پر ایک امریکی ڈالر کا بھاؤ بغیر کسی تبدیلی کے 224 روپے 71 پیسے پر برقرار رہا، جبکہ اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر 234 روپے پر دستیاب رہا۔پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں استحکام کے باوجود امریکی کرنسی کی قدر میں واضح کمی آتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ملک بوستان کے مطابق برے وقت میں دوست ممالک نے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا، اس لیے حکومتی اعلانات کے باجود ڈالر کا ریٹ مسلسل اوپر جاتا رہا۔ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور چین سے پاکستان کو 13 ارب ڈالر کا آسرا تھا، جس میں سے دونوں ممالک نے تین، تین ارب ڈالر کی اقساط معاف کر دیں اور ابھی تک مجموعی طور پر سات ارب ڈالر اسلام آباد کو دینا ہیں۔اگر یہ سات ارب جلد آجاتے ہیں تو ڈالر کی قیمت پر فرق پڑ سکتا ہے، ورنہ قیمت میں اضافہ جاری رہے گا۔رپورٹ کے مطابق حالیہ سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران بیرون ملک پاکستانی ورکرز کی جانب سے 12 ارب ڈالر بھیجے گئے، جبکہ گذشتہ مالی سال کے دوران اسی عرصے میں 13.3 ارب ڈالر موصول ہوئے تھے۔یوں گذشتہ سال کی نسبت اس سال اسی عرصے کے دوران ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔مارکیٹ ذرائع کے مطابق ہنڈی اور حوالہ میں ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ کی نسبت 20 روپے زیادہ ادا کی جا رہی ہے، جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی رقوم میں کمی کا ایک اور سبب ہو سکتا ہے۔