لاک ڈاﺅن کے خلاف امریکہ بھر میں احتجاجی مظاہرے

0
357

نیویارک (پاکستان نیوز) کورونا وائرس لاک ڈاﺅن کیخلاف شہریوں کا صبر جواب دے گیا ہے ،مظاہرین کی بڑ ی تعداد ہاتھوں میں اسلحہ اٹھائے مختلف شہروں میں سڑکوں پر نکل آئی ہے ، مشی گن ، ٹیکساس ، نیویارک سمیت دیگر ریاستوں میں مظاہرین کی اکثریت نے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی ، اس دوران اسلحہ بردار مظاہرین نے سرکاری عمارتوں کے گھیراﺅ کی بھی کوشش کی جس کو سیکیورٹی اہلکاروں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے روکا ، لاک ڈاﺅن کیخلاف احتجاج کے دوران بل گیٹس کی گرفتاری کے لیے بھی تحریک شروع کر دی گئی ہے جس میں بل گیٹس پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے کینیا میں مشکوک ویکیسن کے ذریعے بچوں کو بانجھ بنایا ہے اور کورونا وائرس کے پھیلاﺅ میں بھی بل گیٹس کا بنیادی کردار ہے ، کورونا وائرس سے قبل ہی بل گیٹس نے اس کی پیشگوئی کر دی تھی ، 4لاکھ 82ہزار افراد کی دستخط شدہ پٹیشن وائٹ ہاﺅس میں دائر کر دی گئی ، صدر ٹرمپ نے سفید فارم مظاہرین کی جانب سے اسلحہ اٹھائے احتجاج پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب اچھے لوگ ہیں ، سیکیورٹی فورسز کو چاہئے کہ ان کیخلاف سخت اقدامات میں نرمی کرے۔احتجاج کے دوران سرکاری عمارتوں کے گھیراﺅ کے واقعات کے بعد سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد خوف میں مبتلا ہو گئی ہے جبکہ درجنوں سینیٹرز نے بلٹ پروف جیکٹس پہن کر کام کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔امریکہ میں نیویارک سمیت کئی شہروں میں بیروزگاری، جنگ اور مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے نفرت پر مبنی حملوں کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں جن میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے۔سب سے بڑا مظاہرہ نیویارک شہر کے مشہور علاقے یونین اسکوائر پر ہوا ہے جس میں انٹرنیشنل ایکشن سینٹر سمیت جنگ مخالف تنظیموں اور مسلم گروپوں نے شرکت کی ہے۔مظاہرے میں نیویارک اور آس پاس کی ریاستوں کی مساجد اور اسلامک سینٹرروں کے ایک سو کے قریب امام بھی شریک تھے۔ جنگ مخالف نعروں اور بینروں کے ساتھ سینکڑوں مظاہرین نے امریکہ میں ،بقول انکے، مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے نفرت پر مبنی حملوں کے خلاف نعرف لگائے اور تقریریں بھی کیں۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لاک ڈاﺅن اور گھروں پر رہنے کے ریاستی حکم کے خلاف مظاہرہ کرنے والے جدید ہتھیاروں سے لیس مسلح سفید فام مظاہرین کو اچھے لوگ قرار دے دیا۔ ٹرمپ نے مشی گن کے مسلح مظاہرین کے حق میں بیان دے کر ریاستی گورنر کو لاک ڈاﺅن سے متعلق سخت اقدامات پر نرمی کا مشورہ دے دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ مشی گن کے گورنر کو غصہ کم کرنے کے لیے تھوڑی گنجایش نکالنی چاہئے۔ انہوں نے جدید ہتھیاروں سے لیس مسلح مظاہرین کے بارے میں کہا کہ وہ اچھے لوگ ہیں لیکن تھوڑے غصے میں ہیں، وہ بحفاظت اپنی زندگی کو واپس چاہتے ہیں۔ دریں اثنا بیورو آف اکنامک تجزیہ (بی ای اے) نے کہاہے کہ کورونا وائرس کے باعث مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے حساب سے امریکی شرح نمو سالانہ بنیاد پر .4 8 فیصد کمی سے دوچار ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ماہر اقتصادیات شرح نمو میں .4 8 فیصد کمی گریٹ ڈپریشن سے بھی کہیں زیادہ قرار دے رہے ہیں، امریکی معیشت تیزی سے کساد بازاری میں داخل ہو رہی ہے۔بی ای اے کی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی میں کمی دراصل مارچ میں حکومتوں کی جانب سے وائرس کے تناظر میں لوگوں کو گھروں میں رہنے کے حکم سے واقع ہوئی۔ اس کے نتیجے طلب میں تیزی سے تبدیلی ہوئی، کاروباری سرگرمیاں اور سکول بند ہوگئے یا انہوں نے اپنے امور منسوخ کردیئے، صارفین نے اپنے اخراجات کو منسوخ، محدود یا ری ڈائریکٹ کردیا۔کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر طلب میں کمی کے باعث امریکی درآمدات 15۔ 3 فیصد جبکہ برآمدات میں 8۔ 7 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔علاوہ ازیں بتایا گیا کہ کاروباری سرمایہ کاری میں 8۔ 6 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔اس ضمن میں معاشی ماہرین نے موجودہ سہ ماہی کے لیے مزید خراب صورتحال کی پیشگوئی کی ہے۔واضح رہے کہ سینیوز کورونا وائرس کے سبب ہنگامی صورتحال کے پیش نظر 20 کھرب ڈالر کے امدادی پیکج کی منظوری دے چکی ہے۔کانگریس کی جانب سے منظور تاریخ کے سب سے بڑے امدادی پیکج کے تحت 500 ارب ڈالر وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صنعتی شعبے کی مدد کی جائے گی جبکہ 3 ہزار ڈالر فی کس امریکا کے لاکھوں خاندانوں میں امداد کے طور پر تقسیم کیے جائیں گے۔دوسری جانب امریکہ کے محکمہ محنت نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے ملک بھر میں مزید 38 لاکھ افراد نے بیروزگاری الاو¿نس کے لیے درخواست دی ہے۔ اس طرح چھ ہفتوں میں روزگار سے محروم ہونے والوں کی تعداد تین کروڑ سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔صدر ٹرمپ نے وسط مارچ میں ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد پہلے ہفتے میں 33 لاکھ، دوسرے میں 69 لاکھ، تیسرے میں 66 لاکھ، چوتھے میں 52 لاکھ اور پانچویں ہفتے میں 44 لاکھ شہریوں نے روزگار کھویا تھا۔امریکہ کی ورک فورس 15 کروڑ افراد پر مشتمل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں ہر پانچ میں سے ایک شخص ذریعہ آمدن سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے ایک حالیہ تجزیے میں کہا ہے کہ 15 مارچ سے 18 اپریل کے درمیان کم از کم 89 لاکھ مزید افراد بیروزگار ہوئے۔ لیکن، وہ پیچیدہ عمل ہونے کی وجہ سے بیروزگاری الاو¿نس کے لیے درخواست نہیں دے سکے۔دیگر معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مزید لاکھوں وہ تارکین وطن ہیں جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں یا جو قانونی قیام تو رکھتے ہیں لیکن بیروزگاری الاو¿نس کے اہل نہیں۔عام حالات میں ہر ماہ چند لاکھ افراد بیروزگاری الاو¿نس کی درخواست دیتے تھے۔ لیکن، اب ہر ہفتے دسیوں لاکھ افراد کا بیروزگار ہو رہے ہیں جس سے ریاستی حکومتوں پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ لاکھوں افراد گھر کا کرایہ اور دوسرے بل نہیں دے پا رہے جس سے مجموعی طور پر معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔امریکہ میں معمول کے زمانے میں ہر سال ملازمت کے کئی لاکھ مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ عام حالات میں تین کروڑ ملازمتوں کی فراہمی میں بہت سال لگ سکتے ہیں لیکن کیلی فورنیا پالیسی لیب کا گزشتہ روز سامنے آنے والا یہ تجزیہ خوش آئند ہے کہ حالیہ ہفتوں میں بیروزگار ہوئے 90 فیصد افراد کو بحران ختم ہونے کے بعد ان کے ادارے دوبارہ ملازم رکھ لیں گے۔اسی رپورٹ کے مطابق بیروزگار ہو جانے والوں میں 37 فیصد افراد ایسے ہیں جن کی تعلیم ہائی سکول یا اس سے کم ہے۔ بیچلرز ڈگری والے صرف 6 فیصد افراد ملازمتوں سے محروم ہوئے ہیں۔واشنگٹن پوسٹ نے ایک معاشی ماہر کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مستقبل قریب میں ریاستی اور مقامی حکومتیں بھی اپنے ملازمین کی تعداد کم کرنے پر مجبور ہوسکتی ہیں جس کے بعد بیروزگار ہونے والوں کی تعداد 4 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔امریکی محکمہ تجارت کے مطابق نے بدھ کو ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ جنوری سے مارچ تک قومی معیشت 48 فیصد سکڑ گئی جو 2008 کے معاشی بحران کے بعد سب سے زیادہ زوال ہے۔لاک ڈاو¿ن سے سب سے زیادہ جو شعبے متاثر ہوئے ہیں ان میں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری، ریسٹورنٹس، ہوٹل اور سفر کے ذرائع شامل ہیں۔ عالمی سطح پر پروازیں بند ہونے سے بہت سی فضائی کمپنیاں بند ہونے کا خدشہ ہے۔ بوئنگ نے گزشتہ روز اعلان کیا ہے کہ وہ 10 فیصد عملہ کم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس سے روزگار کے 14 ہزار مواقع ختم ہوجائیں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here