80مسلم تنظیموں کا کمیونٹی کی جاسوسی پر تحقیقات کا مطالبہ

0
128

واشنگٹن (پاکستان نیوز)امریکہ میں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کی جاسوسی کا معاملہ سنگین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ، ایف بی آئی ، ہوم لینڈ سیکیورٹی اور نیویارک پولیس کی جانب سے انویسٹی گیٹو پروجیکٹ آن ٹیررزم (آئی پی ٹی ) کے تحت مسلم کمیونٹی کی جاسوسی پر 80 کے قریب انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے ، کیئر کے مطابق اس بات کاانکشاف گزشتہ برس دسمبر میں ہوا جس معلوم ہوا کہ کیئر اوہائیو کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر رومن اقبال ایجنسیوں کے ساتھ مل کر مسلم کمیونٹی کی 10 سالوں سے جاسوسی میں ملوث ہیں ، کیئر نیشنل آفس کی جانب سے اس معاملے کا انکشاف پریس کانفرنس کے دوران کیا گیا ، جاسوسی ایکٹ آئی پی ٹی کو 1995 میں سٹیون ایمرسن کی جانب سے تشکیل دیا گیا تھاجوکہ واشنگٹن ڈی سی میں صحافتی خدمات انجام دے چکے تھے ، تنظیم کے عہدیدار اسمہان نے بتایا کہ جاسوسی کی کارروائیاں مسلم کمیونٹی کے لیے نئی نہیں ہیں لیکن یہ سب ناقابل برداشت ہو گیا ہے ، اگر یہ سب کسی دوسرے مذہب یا کمیونٹی کے ساتھ ہوتا تو اس کی آواز ایوانوں میں میں سنائی دینی تھی لیکن مسلم کمیونٹی کو دیگر اقلیتوں کے ساتھ ترجیح نہیں دی جاتی ہے جوکہ امریکہ میں ایک بہت بڑا المیہ ہے، امریکہ کے آئین میں اظہار رائے کی آزادی کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ہے ، ہر شہری اپنے خیالات اور بات کہنے میں آزاد ہے تو پھر یہ پابندیاں ، جاسوسی پروگرامز کس لیے ہیں، کیئر کی جانب سے 2019 میں بھی آزادی اظہار رائے دبانے، بی ڈی ایس قانون کے خلاف درخواست فائل کی گئی تھی، کیئر اور دیگر تنظیموں کی جانب سے ورجینیا ہائوس آف ڈیلی گیٹس کمیٹی کو لکھے گئے خط میں موقف اپنایا گیا کہ مسلم کمیونٹی اور عبادت گاہوں کی جاسوسی غیر آئینی اقدام ہے جس کی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہئے ، تنظیموں کی جانب سے معاملے کو اعلیٰ ایوان میں اُٹھانے کا بھی مطالبہ کیا گیا، خط میں موقف اپنایا گیا کہ مسلم تنظیموں او رکمیونٹی کی جانب سے اسرائیل کے بائیکاٹ کا مطالبہ کوئی غیر آئینی اقدام نہیں ہے ، امریکہ کا آئین ہمیں اپنی آواز بلند کرنے کا حق دیتا ہے ، اس پر مسلم کمیونٹی کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا کسی صورت درست نہیں ہے، آزادی اظہار رائے کا قانون ایچ بی 1161تمام شہریوںکو اظہار رائے کا حق دیتا ہے، مسلم تنظیموں کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ مسلمانوں کی جاسوسی کی جا رہی ہے جبکہ عبادت گاہوں پر بھی کڑی نظر رکھی گئی ہے، ایجنسیوں کی جانب سے یہودیوں، عیسائیوں ، سکھوں اور ہندوئوں کی عبادت گاہوں کی بالکل بھی نگرانی نہیں کی جا رہی ہے، امریکہ میں نمایاں حیثیت کی حامل مسلم کمیونٹی کی خفیہ حکومتی پروگرام کے تحت جاسوسی مسلم کمیونٹی کو ڈپریشن کا شکار کرنے لگی،پرائیویسی ختم ہو کر رہ گئی ہے ، امریکی آن لائن میگزین The Intercept میں شائع ہونے والی اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے FBI اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی NSA کے اہلکاروں نے معروف امریکی مسلم شخصیات سمیت کمیونٹی کی جاسوسی کی ہے، سیکیورٹی اداروں کی جانب سے الیکٹرانک جاسوسی کی بھی اطلاعات سامنے آئی ہیں ، اس رپورٹ میں The Intercept نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ آیا امریکی حکومت نے اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے ان امریکی شہریوں کی جاسوسی سے قبل کسی طرح کی کوئی باقاعدہ قانونی اجازت حاصل کی تھی؟انٹرسیپٹ ‘میگزین کی صحافتی چھان بین سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ خفیہ اداروں کے کارکنوں کی ٹریننگ کے لیے حکومت نے جو تربیتی مواد تیار کر رکھا ہے، اس میں سے ‘کچھ ٹریننگ میٹریل میں مسلمانوں کے خلاف نازیبا بات کہی گئی ہے یا نامناسب انداز’ اختیار کیا گیا ہے جو قابل مذمت ہے، اسی دوران واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس نے قومی سلامتی کی ذمہ دار ملکی ایجنسیوں کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ اپنے تربیتی پروگراموں اور پالیسی کتابچوں کا ‘انٹرسیپٹ’ کی رپورٹ میں کیے گئے دعوے کی روشنی میں نئے سرے سے جائزہ لیں۔ اس میگزین نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ 2005 میں تیار کی گئی ایک سرکاری تربیتی دستاویز میں ‘نازیبا مسلم مخالف’ زبان استعمال کی گئی تھی۔کیئر کی جانب سے ورجینیا ہائوس آف ڈیلی گیٹس جنرل لا سب کمیٹی سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایچ بی 1161قانون کی مخالفت میں ووٹ دے کر اس کو منظور ہونے سے روکے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here