کچھ دال میں کالا ہے! !!

0
13
پیر مکرم الحق

تحریک انصاف نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرکے دوبارہ پینگیں بڑھانے کی کوشش شروع کردی ہے کیونکہ ان کو اندازہ ہوگیا ہے کہ معاملات بہتری کی طرف نہیں جارہے ہیں۔ پہلے علی امین گنڈا پور وزیراعلیٰ پختونخواہ کی وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات اور پھر کابینہ کی ساتھ کورکمانڈر پشاور کے پاس روزہ کشائی اس بات کی علامت ہے کہ اب وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کو تیار ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ یہ فیصلے علی امین گنڈا پور کے ذاتی ہیں بلکہ محسوس یہی ہو رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو احساس ہوگیا ہے کہ معاملہ زیادہ دیر اگر چلتا رہا تو وہ تنہا رہ جائیں گے کیونکہ ان کے ممبران اسمبلی نے بھی دوسرے دروازوں پر دستک دینی شروع کردی ہے۔ طاقتور حلقوں کو سوشل میڈیا کی ٹرولنگ سے زیر نہیں کیا جاسکتا ہے اس بات کا احساس اب تحریک انصاف کے کھلاڑیوں کو ہوچکا ہے اب یہ بات بانی کو بھی سمجھ آرہی ہے۔ جو لوگ بضد تھے کہ ہم نے ہار نہیں ماننی اب انہوں نے راستہ مانگنا شروع کردیا ہے کہ باعزت طریقے سے کہے کے پیچھے ہٹا جاسکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جذباتی کھلاڑی ایسے پیچھے ہٹنے کو اپنی شکست سمجھیں گے۔ اور پھر تمام رہنمائوں کو گالیاں پڑنا شروع ہونگی کیونکہ تحریک انصاف کی جڑوں میں گالیوں کا سیمنٹ پڑا ہوا ہے۔ اب تو یہ طوفان بدتمیزی کا رخ مخالفین کے جانب تھے اب جب اسکا رخ اپنے معتبر رہنمائوں کے جانب ہوگا تو پارٹی اندرونی خلفشار کا شکار ہوگی اور لوگ یا تو سیاست سے کنارہ کشی ہونگے یا جہانگیر اختر بن جائیں گے۔ اور پھر اس ہارے ہوئے گھوڑے کو ملک ریاض بھی گھاس نہیں ڈالے گا۔بغیر مالی امداد کے پارٹی کہاں سے چلے گی۔ عمران خان نے اس سیاست پر اپنا ایک ڈھیلانے پہلے خرچ کیا ہے نہ آئندہ کرنے والے ہیں۔ لیکن ایک بات تو ماننی پڑیگی کہ پہلے جیل اور کوڑے برداشت کرنے والے جیالوں نے پیپلزپارٹی کا پودا سینچا تھا اب انصافیوں یا کھلاڑیوں نے ڈر اور خوف کے ماحول میں ایک شگاف تو ڈال دیا ہے اور پاکستانی سیاست ایک بار پھر سڑکوں پر لے آئے ہیں۔ مانا کہ ابھی مکمل انقلاب میں کچھ دیر لگے گی لیکن بہرحال باوجود ہزار اختلافات کے لیے کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نازوں پلا عیاشی ماضی کے پلے بوائے نے بتا دیا ہے کہ وہ بھی جیل میں رہنے کا حوصلہ بحرحال رکھتا ہے۔ حالانکہ وہ پہلے سیاسی قیدی ہیں جنہیں جیل میں ٹریڈ مل دی گئی اور فرمائشی خوراک کی اجازت بھی لیکن بھائی جیل وسنے کی دیواروں والا بھی ہو جیل جیل ہی ہوتا ہے۔ قید انسان کو بے بسی کا بھاری احساس دلا دیتا ہے۔ خدا کسی انسان پر ایسا وقت نہ لائے۔ پھر بھی غریب اور امیر کے جیل میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے۔ غریب آدمی کے جیل میں بغیرتی کے ورق لگے ہوئے ہیں۔ اور امیر آدمی جیل میں بھی بڑے آرام سے رہتا ہے اچھا کھلاتا ہے اچھا پہنتا ہے آیئے دعا کریں کہ ہمارے ملک میں اصلی جمہوریت کا سورج طلوع ہو اور تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی کاٹ کرنا چھوڑیں عدلیہ آزاد ہو انصاف کا بول بالا ہو۔ یہ خواہش بھی کشھمیر اور فلسطین کی آزادی کی خواہش جیسی ہے لیکن خواب دیکھنے پر کوئی قدغن نہیں۔ خواب تو دیکھنے کا حق پر کسی کو ہے۔ اور دعائوں میں اگر دل سے مانگی جائیں تو اثر تو ہوتا ہے میرے دیس کے بھوکے پیاسے بچوں کے دن کبھی تو پھریں گے اور ہم کھانے پینے کی اشیاء میں خود کفیل ہونگے۔ بجلی اور گیس ارزاں ہونگے پاکستان میں امن وامان لوٹے گا اور سفید پوش ڈاکوئوں کی لوٹ مار سے رہائی ملیگی عوامی راج قائم ہوگا۔ اگر بنگلہ دیش اور ہندوستان ترقی کرکے چاند پر پہنچ گئے تو کیا پاکستان کے لوگ اندھیروں میں بھٹکنے کا ٹھیکہ لئے بیٹھے ہیں۔ کیا ہندوستان کے سیاستدان بدعنوان نہیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب کسی معاشرے میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے ایمان ہوجائیں تو پھر وہاں حالات بد سے بدتر ہوجاتے ہیں۔ عید نماز کے بعد سارے لوگ اللہ پاک کے حضور گڑ گڑا کر دعا کریں۔ انشاء اللہ بہتری ہوگی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here