8فروری کو اگر انتخابات نہیں ہوئے تو؟

0
122
پیر مکرم الحق

آج کل آٹھ فروری کو انتخابات کو مشکوک ہوگیا ہے یا بنایا جارہا ہے؟ ہر اینکر اس موضوع پر نئی بات کرکے آنیوالے انتخابات کو متنازعہ بنا رہا ہے۔ کیا یہ بیانیہ کچھ حقائق پر مبنی ہے یا محض ایک شوشہ؟ اس دوران میں ایک نئی کہانی نے بھی جنم لے لیا اور بلاول بھٹو نے ”بابوں کو گھر بیٹھنے کا مشورہ دیدیا حامد میر نے اس بات پر آصف زرداری کو آڑے ہاتھ لے لیا اور آصف نے بوکھلاہٹ میں یہ کہہ ڈالا کہ بلاول نے یہ بات فقطہ میرے لئے نہیں بلکہ تمام بزرگ سیاستدانوں کیلئے کہی ہے جس پر حامد میر ایک پرانے کہنے مشق شکاری کی طرح آصف زرداری پر جھپئے اور سوال کر ڈالا کہہ تو آپ یہ سمجھتے ہیں کہ بلاول نے یہ بات آپ کے لئے کہی ہے؟ جس پر آصف زرداری کی انا بڑھک اٹھی اور انہوں نے بلاول بھٹو کو زیر تربیت ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے یہ بھی مان لیا کہ بلاول مجھ سے زیادہ ذہین اور تعلیم یافتہ ہیں لیکن تجربہ کا نعم البدل کوئی اور چیز نہیں۔ اب یہ ساری گفتگو موضوع سخن بن گئی کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہGood Cop Bad Copوالی حکمت عملی ہے اور باپ بیٹے کے اختلافات اصلی نہیں جعلی ہیں لیکن کچھ لوگوں نے اسےCreneration gepیعنی نمبروں کے فرق اور اس سے جنم لینے والے اختلافات سے تعبیر کیا ہے۔ آصف زرداری نے اسی انٹرویو میں یہ بھی فرما دیا کہ دراصل بلاول تین پی والی پارٹی کے چیئرمین ہیں جبکہ میں چار پی کا صدر ہوں یہاں میں قارئین کو یاد دلائوں کہ جنرل مشرف نے جب پاکستان پیپلزپارٹی پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی تھی کیونکہ پی پی پی کی سربراہ محترمہ بینظیر بھٹو تھیں تومحترمہ نے ایک اور پارٹی تشکیل دی تھی جسے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینPPPPکا نام دیا گیا تھا اور مرحومہ ومغفور مخدوم امین فہیم صاحب کو اس جماعت کا سربراہ بنایا گیا تھا تاکہ پارٹی انتخابات میں حصہ لینے سے قاصر نہیں رہے محترمہ کی شہادت کے بعد پارٹی کے ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران نے متفقہ طور پر بلاول بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین بنایا تھا اور آصف زرداری کوشریک چیئرمین نامزد کیا تھا جسکا مطلب تھا کہ پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو ہیں البتہ معاونت کیلئے آصف زرداریCO.CHARMANبنائے گئے تھے۔ بچپن سے لیکر بلاول بھٹو اپنی والدہ محترمہ کے زیر تربیت رہے جتنا عرصہ آصف زرداری جیل میں تھے محترمہ نے اپنے بچوں کی شخصیت سازی کی۔ بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کے رجحانات سیاست کی طرف تھے اسی لئے دونوں بھائی بہن کہنے مشق سیاستدانوں کی طرح سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نظر آتے ہیں اور بلاول بھٹو میں اپنے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح تقریر کے فن ملک اپنے نانا اور والدہ کی طرح بہترین مقرر کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ پچھلی حکومت جس مہارت اور خوش اسلوبی سے بلاول بھٹو نے بطور وزیر خارجہ اپنا کردار ادا کیا۔ بیرونی ممالک میں انہوں نے عام لوگوں کے علاوہ سیاستدانوں کے علاوہ مغربی صحافیوں کو حیرت زدہ کردیا تھا کہ ایک نوجوان جو ابھی کچھ عرصہ پہلے سیاست میں آیا ہے وہ اسی مدلل بات کرنے کی صلاحیت رکھ سکتا ہے ابھی تلک تو جو پاکستانی سیاستدان دیکھنے آئے تھے ان میں کوئی ڈھنگ سے بات نہیں کر پاتا تھا متاثر کرنا تو دور کی بات ہے۔ بلاول بھٹو کو ذہانت اور انداز تحاطب بھٹو خاندان سے ورثہ سے ملا ہے اعلیٰ ترین تعلیم نے انہیں سوچ کی اور سمجھ کی وسعت دی ہے۔ اپنی عظیم ماں کی گود اور تربیت نے انہیں اپنی بات میں وزن اور توجہ کو مرکوزFOCUSکرنا دکھایا ہے۔ جسے دنیا بھر نے تسلیم کیا ہو اس پر اگر انکا اپنا والا زیر تربیت ہونے کا طعنہ دے تو یہ بات ہے گھر کی مرغی”والی بات یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پیپلزپارٹی کا اگر بہتر مستقبل موجود ہے تو وہ بلاول بھٹو کی نوجوان اور پرجوش قیادت میں ہی ممکن ہے ورنہ جو پچھلے دہائیوں میں پارٹی کا پنجاب میں حشر ہوا ہے وہ مستقبل میں سندھ میں بھی ہوسکتا ہے پی پی پی کی سندھ حکومت کی ناقص کارکردگی اور بدعنوانی اور نااہلی نے جتنا پی پی پی کو بدنام کیا ہے ایسا بدنامی کا طوق پارٹی کے گلے میں کبھی نہیں پڑا جتنا پچھلے دس سالوں میں پڑا۔ یاد رہے کہ یہ پارٹی جسکی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو جیسے اعلیٰ اور دوراندیش سیاسی قائد نے ڈالی اور انکی شہادت کے بعد انکی عظیم دختر نیک اختر نے سنبھالی تھی انہیں دو دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم ملنے کا اعزاز حاصل ہوا اور دنیا بھر میں جس طرح انہیں اعزازات اور عزت سے نوازا اس کی مثال نہیں ملتی۔ انکے زیر تربیت جو بچہ آج جوان ہے اسکی سیاسی بصیرت اور تربیت پر سوال اٹھانے والوں کی دماغی حالت مشکوک نظر آتی ہے۔ محترمہ کا اوڑھنا بجھونا سیاست تھی انہوں نے سیاست پڑھی اور سیاست کی اور دھڑلے کے ساتھ کی۔ اس خانوادے کی سیاسی استقامت ہمت اور بہادری کا گواہ گڑھی خداب خش ہے انہوں نے سودی بازی کو سیاست کا نام نہیں دیا اپنی عوام کی بہتری کیلئے اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے جنگ کی اپنی جانوں کا نظرانہ دیا چاہئے تو اپنی دولت لیکر بیرون ملک عیاشی کی زندگی گزار سکتے تھے۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو عزت دی محبت دی جسے اپنے بچوں کو سمجھتے تھے دکھاوا نہیںبھٹو خاندان نے اپنی جانوں کا نظرانہ دیکر عوام کے دلوں میں اپنا مقام بنایا نہ لفاظی کی نہ شو بازی کی۔آج جو کچھ بلاول ہے یہ ساری خوبیاں اور کامیابیاں اس کے ننہال کا دیا ہوا ورثنہ ہے جو لوگ انکی سیاسی بلوغت پر سوال اٹھائے وہ بیوقوفوں کی جنت کے مطمئن ہیں۔ راقم خود بھی ایک سینٹر سٹیزن ہے لیکن اس بات سے مکمل طور پر متفق ہے کہ یہ نوجوانوں کا دور ہے تکنیکی دور میں نوجوان اسے سے فائدہ لیکر صحیح فیصلے کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں آگے آکر اپنا کردار ادا کرنے دیں ورنہ سازشی سیاست میں ہمیں تباہ کردیگی۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here