واشنگٹن(پاکستان نیوز) امریکا اور روس نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ساتھ کام کرنے پر اتفاق کیا ہے کہ عالمی برادری ’اسلامی اماراتِ افغانستان‘ کی بحالی کی حمایت یا سے قبول نہ کرے۔ رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ امریکا اور روس ’ایک سیاسی عمل اور مفاہمت کے بعد افغان اسلامی حکومت میں بین الافغان بات چیت میں متعین ہونے والے اپنے ممکنہ کردار‘ کے حوالے سے طالبان کے عزم کو سراہتے ہیں۔ تاہم انہوں نے ’دہرایا کہ اسلامی امارت افغانستان کو بین الاقوامی برادری اقوامِ متحدہ میں تسلیم نہیں کرے گی، مزید یہ کہ عالمی برادری بھی اسلامی امارت افغانستان کی بحالی کو قبول یا اس کی حمایت بھی نہیں کرے گی‘۔ دوسری جانب 2 روز قبل طالبان کی جانب سے بھی ایک بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ 2001 میں امریکا کی جانب سے کابل حکومت کے خاتمے سے قبل جو ’اسلامی حکومت‘ قائم تھی اسے بحال کرنا ان کا فرض ہے تاہم انہوں نے بھی اسلامی امارت افغانستان کا لفظ استعمال کرنے سے احتراز برتا تھا۔ واضح رہے کہ امریکی نمائندوں نے مذکورہ بالا مشترکہ بیان کو دوحہ میں طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر دستخط سے ایک روز قبل یعنی 28 فروری کو مسودے کی شکل دی تھی۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان سے14 ہزار امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا کے لیے کچھ شرائط رکھی گئیں تھیں اور کابل میں نئے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے بین الافغان بات چیت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے باجود طالبان کا اصرار ہے کہ ان کے رہنما ملا ہیبت اللہ ’افغانستان کے واحد قانونی حکمراں‘ ہیں اورافغانستان میں ’اسلامی حکومت‘ کی بحالی ان کا فرض ہے۔ طالبان نے اپنے بیان میں کہا کہ دوحہ معاہدے کا مقصد افغانستان میں 19 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے لیکن اس کا ان کے ’جائز دعووں‘ پر ’کوئی اثر نہیں ہوگا۔ دوسری جانب امریکا اور روس نے اپنے مشترکہ بیان میں بین الافغان بات چیت کے آغاز کے لیے اپنی تیاری کا اظہار کیا تا کہ امن معاہدے کی حمایت کے طور پر طالبان رہنماو¿ں پر ’نافذ پابندیوں پر نظر ثانی‘ کیا جائے۔