پرویز مشرف پاکستان کا پہلا حکمران تھا جس کے دور میں پاکستان کی نظریاتی اساس، تہذیبی زندگی اور اخلاقی معیارات کو بدلنے کی پر زور کوشش کی گئی۔ پاکستان بننے کے ٹھیک باون سال بعد برسرِاقتدار آنے والا یہ فوجی ڈکٹیٹر ایک ایسے پاکستان کا خواب دیکھا کرتا تھا جس کی گلیوں بازاروں میں گھومتے اور اقتدار کے ایوانوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے، آپ کو ہرگز یہ محسوس نہ ہو سکے کہ آپ ایک ایسے ملک میں آ نکلے ہیں جہاں کے رہنے والوں نے پچاس سال پہلے یہ ملک اس بنیاد پر حاصل کیا تھاکہ ایک باپ دادا کی اولاد، ایک طرح کی طرزِ زندگی گزارنے والے اور بظاہر ایک طرح کی شکل و صورت اور شباہت رکھنے والے اس لئے اکٹھا نہیں رہ سکتے، کیونکہ ان میں سے ایک نے کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا ہے۔ گنگا جمنی تہذیب کی ساری یکسانیت خاکستر ہو گئی تھی اور وارث شاہ کا پنجاب ایک رنگ، نسل اور زبان بولنے کے باوجود ایسا تقسیم ہوا تھا کہ ماتم کرنے کو امرتا پریتم اور اس کے گروہ کے لوگ ہی باقی رہ گئے تھے جن کی شکست ان کی غصیلی شاعری اور گفتگو سے عیاں تھی۔ اج آکھاں وارث شاہ نوں کی امرتا پریتم سے لے کر یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر والے فیض تک سب کا دکھ اور کرب نمایاں تھا۔ پاکستان قومی ریاستوں کے جمگھٹے میں ایک ایسی واحد علامت کے طور پر روشن ہو چکا تھا جو کسی نسل، زبان، رنگ یا علاقے میں بسنے والے انسانوں کی نہیں بلکہ ایک مذہب، اسلام کو ماننے والوں پر مشتمل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس مملکتِ خداداد پاکستان کو اس کی اساس سے دور کرنے کی کوششیں پہلے دن سے شروع کر دی گئیں تھیں۔ انگریز پاکستان کو تین سیکولر، لبرل اور مغرب زدہ ادارے تحفے میں دے کر گیا تھا۔ پہلا سول بیورو کریسی، دوسرا تاجِ برطانیہ کے تحت منظم کردہ فوج اور تیسرا انگریز کے وفادار خاندانوں کی سیاسی اولاد۔ ان تینوں گروہوں نے پہلے پچاس سال اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ اس ملک کو ایک ایسی قومی ریاست میں تبدیل کر دیا جائے جو آئینی طور پر تو مسلمان کہلائے، لیکن اس کے سیاسی نظریات، رہن سہن، قوانین و نظامِ عدل اور اخلاقی معیارات سب سیکولر ہوں۔ ایک ایسی بوتل جس میں سراسر شراب ہو، لیکن اس پر مشروبِ اسلامی کا لیبل لگا ہوا ہو۔ عوام کی اکثریت کی اسلام سے بے پناہ محبت کی وجہ سے یہ لوگ کامیاب نہ ہو سکے۔ فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان اور یحیی خان کے تیرہ سالہ دور میں پاکستانی معاشرے کو سیکولر بنانے کی کوشش ہوئی، جس کے ردعمل میں پورے ملک میں قوم پرست تحریکیں منظم ہو گئیں۔ جب کلمہ طیبہ کی بنیادی اساس کو ہی پسِ پشت ڈال دیا گیا تو پھر بنگالی، پنجابی، پشتون، سندھی اور بلوچ ہونا لوگوں کے لئے زیادہ بہتر اور خودمختار راستہ تھا۔ اس سیکولر ڈکٹیٹر شپ کے دور میں جو قوم پرست تحریکیں اٹھیں ان کی وجہ سے مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ بھٹو نے بھی اسی سیکولر راستے پر کیمونزم کی گاڑی چلانے کی کوشش کی، لیکن چند سال بعد ہی عوامی ردعمل نے اسلام سے ایسی محبت دکھائی کہ اس کا سورج 1977 میں غروب ہو گیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں ضیا الحق کی حکومت آئی، جس نے بظاہر اپنی بقا کے لئے بیوروکریسی، فوج اور سیاست میں اسلام کو بزورِ طاقت داخل کرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے تمام اسلام دشمن افراد کے لئے ضیا الحق گلے کی وہ ہڈی ہے جو ایسی پھنسی ہے کہ آج تک نہیں نکل سکی۔ مشرف کو اپنے مزاج اور نظریات کے حوالے سے ایک سازگار ماحول میسر آیا تھا۔ امریکہ نے گیارہ ستمبر واقعہ کے بعد پوری دنیا کے مسلمانوں کے خلاف جس صلیبی جنگ کا آغاز کیا تھا مشرف اس کا ساتھی اور پاکستان اس کا ہراول دستہ بن چکا تھا۔ پاکستان میں تین بنیادی معاملات ایسے ہیں جو اس قوم کی غیرت و حمیت کا بیرو میٹر یا پیمانہ ہیں۔ پہلا، ناموسِ رسالت: مشرف نے اسے چھیڑنے کی کوشش کی جسے پیپلز پارٹی نے جاری رکھا، لیکن سلمان تاثیر کی موت کے بعد انہوں نے منہ کی کھائی اور سب سمٹ کر بیٹھ گئے۔ بھارت سے خوشگوار تعلقات دوسرا نکتہ ہے، مشرف نے اس کے لئے تمام ممکنہ حربے استعمال کئے، یہاں تک کہ کشمیر کے بارڈر پر باڑ بھی لگا دی گئی لیکن بھارت میں نریندر مودی اقتدار میں آیا اور مشرف کے خوابوں کے ساتھ اس کے تمام حواری اور سیفما سمیت سب دبک کر بیٹھ گئے۔ تیسرا اہم نکتہ اسرائیل سے تعلقات کو بحال کرنا ہے۔ مشرف دور میں اس پر پہلی دفعہ سنجیدگی سے کام شروع ہوا۔ اسرائیل کے اخبارات وغیرہ میں بھی اب کھل کر اس موضوع پر گفتگو کا آغاز کر دیا گیا۔ 31 اگست 2005 کو پاکستانی اور عالمی اخبارات نے یہ حیران کن خبر لگائی کہ پاکستانی وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری اور اسرائیلی وزیرِ خارجہ سلوان شالوم آپس میں ملاقات کرنے والے ہیں۔ خبر کی اشاعت کے صرف 48 گھنٹے بعد 2 ستمبر 2005 کو استنبول کے ایک ہوٹل میں یہ ملاقات ہو گئی۔ ملاقات کے بعد دونوں ہوٹل کی لابی میں آئے، انہوں نے ایک دوسرے سے ایک بار پھر صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملایا اور سوالات کے جواب بھی دیئے۔ خورشید محمود قصوری نے بیت المقدس اور یروشلم کا بالکل تذکرہ نہیں کیا، بلکہ اسرائیل کے غزہ پر قبضے کے بارے میں گفتگو کی اور کہا کہ ہم وہاں سے اسرائیل کی افواج کے انخلا پر گفتگو کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اسرائیل کی یہودی ریاست کے شانہ بشانہ فلسطینی ریاست کے امریکی تصور کا خوب چرچا کیا۔ جبکہ اسرائیلی وزیرِ خارجہ سلوان شالوم نے بغیر کسی لگی لپٹی رکھے سب سے پہلے یہ کہا، ہمارے یہ مذاکرات پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کی جانب ایک قدم ہے اور پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنا دیگر مسلم ممالک کے لئے بھی مددگار ثابت ہو گا تاکہ وہ ایک یہودی (Jewish) ریاست کے ساتھ تعلقات استوار کر سکیں۔ یہاں اس نے خاص طور پر یہودی ریاست کا لفظ استعمال کیا۔ اگلے دن اسرائیل کے تمام اخبارات میں یہ خبر شہ سرخیوں میں تھی۔ خورشید قصوری اور سلوان شالوم کی یہ ملاقات اچانک نہیں ہو گئی۔ اس کے پیچھے اسرائیل اور پاکستان میں کام کرنے والی پسِ پردہ قوتوں کی محنت شامل رہی۔ ان تمام کوششوں کا آغاز ضیا الحق کے بعد شروع ہوا، اس سے پہلے کے چالیس سال، پاکستان کی اسرائیل دشمن پالیسی کی علامت تھے۔ ڈیوڈ بین گوریان نے 14 مئی 1948 کو قیامِ اسرائیل کے بعد وزیر اعظم بنتے ہی قائد اعظم کو ایک ٹیلی گرام بھیجا تاکہ سفارتی تعلقات کا آغاز کیا جا سکے۔ قائد اعظم جو پہلے ہی اسرائیل کو یورپ کی ناجائز اولاد کہہ چکے تھے، انہوں نے نہ صرف یہ کہ کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ عرب اسرائیل جنگ جو اسرائیلی قیام کے ساتھ ہی شروع ہو چکی تھی، پاکستان نے چیکو سلاویکیہ سے دو لاکھ پچاس ہزار بندوقیں خریدیں اور لڑنے والے عربوں کو سپلائی کیں، اس کے علاوہ اٹلی سے چار فوجی طیارے خرید کر مصر کو مہیا کئے۔ امریکی سکیورٹی آرکائیوز سے ملنے والی ان معلومات کی بنیاد پر یہ تفصیل موشے ییگر (Moshe Yegar) نے اپنے مضمون میں لکھی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں تھی، مگر پھر بھی قائد اعظم نے اسرائیل کے خلاف لڑنے والے عربوں کو مکمل مدد فراہم کی۔ اس کے بعد دوسری عرب اسرائیل جنگ جو 1967 میں ہوئی، پاکستان نے اسرائیل سے لڑنے کے لئے اپنے چھ فائٹر پائلٹ بھیجے، جن میں سے ایک پاکستانی پائلٹ سیف الاعظم کو چار اسرائیلی طیارے مار گرانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1973 کی جنگ میں پاکستان نے فلسطینیوں کا بھر پور ساتھ دیا۔ اس جنگ میں مصر نے حیران کن فتح حاصل کی تھی اور دنیا کی سب سے مضبوط اسرائیلی دفاعی لائن بارلیو (Bar Lav) کو خاک میں ملا دیا تھا۔ اس کے بعد 1982 میں جب اسرائیل لبنان میں داخل ہوا تو لاتعداد پاکستانی اس سے لڑنے کے لئے گئے جن میں سے پچاس پاکستانیوں کو اسرائیل نے گرفتار بھی کیا۔ لیکن مشرف کے اقتدار میں آتے ہی سب کچھ بدل گیا۔
٭٭٭