فیصل آباد کے اندھے قتل کی کہانی!!!

0
20
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے ہر چند دنیا میں ایسے ہزارہا واقعات پیش آتے رہتے ہیں آپ کو نصیحت ہے ہر روز صبح اُٹھ کر پہلا کام کریں کہ صدقہ نکالیں، اپنا فیملی کا گھر کا حصار کریں ،دعا کریں گھرانہ نظر بد سے محفوظ رہے، کیونکہ یہ زمانہ اتنا خراب ہوچکا ہے کہ آپ کسی پر بھروسہ نہیں کرسکتے ،یہ واقعہ کوٹ رادھا کشن میں پیش آیا تھا اور آج کا واقعہ ایک ایسے جرم سے تعلق رکھتا ہے جو قتل پر مبنی ہے نام و شناخت کرداروں کی اس کہانی میں ظاہر نہیں کی جائیگی یہ ایک سچی کہانی ہے اور ایک ماں کی کہانی ہے جس نے اپنے تین بچے لڑکے اور دو لڑکیاں پالیں مرحومہ جوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں ۔
لڑکیاں جوان ہوئیں تو ان کی شادی کردی گئی لڑکوں کو پڑھایا لکھایا ایک لڑکا امریکہ سیٹل ہوگیا دوسرا آسٹریلیا چلا گیا تیسرے کی نوکری نہ لگ سکی وہ کام کے سلسلے میں قریبی شہر منتقل ہوگیا ،اب بیوہ ماں جی اکیلی رہ گئیں تنہائی سے پریشان ماں نے محلے میں موجود چند گھر چھوڑ کر رہنے والے بچے کو گھر کام سودا سلف لانے کے عوض ذمہ داری لگادی اور اس کی وہ ادائیگی بھی کردیا کرتی تھیں وہ بچہ ان ماں جی کے بچوں کے ساتھ بچپن میں کھیلتا کودتا بڑا ہوا گھر میں آنا جانا تھا اپنے بچوں کی طرح اس کو سمجھا ۔
یہ ماں جی خود اسی سالہ عمر کو پہنچیں تو انکا انحصار اس محلے کے بچے پر بڑھتا گیا اور اس بچے کی ڈیمانڈیں اور مانگیں بھی ہر ماہ کم از کم پچیس ہزار ماہانہ بطور تنخواہ اس کو دیا جاتا دیگر خرچے کھانا پینا الگ ایک گھر کے فرد کی طرح اس کے علاوہ گھر پر دن میں ایک کام والی آتی جو جھاڑو پوچا اور برتن دھونے کا کام کرتی ایک دن کام والی گھر آء تو دیکھا دروازہ بند اور کھٹکھٹانے پر بھی نہ کھلا تو محلے دار جمع ہوئے جب دروازہ کھولا گیا تو ڈرائنگ روز ایک ہیبت ناک منظر پیش کررہا تھا وہاں ماں جی کی لاش خون میں لت پت موجود تھی اور فرش پر خون کے نشان پولیس کو اطلاع دی گئی محلے والوں نے بیٹوں کو فون کیا جو جنازے پر نہ آسکے بقول پولیس رپورٹ کے مطابق مقتولہ خاتون پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے قبل قتل کی گئی اور ان کے سرپر چوٹیں تھیں اور ایک ہاتھ کی رگ کاٹ دی گئی تھی ۔
پولیس پھر پولیس ہوتی ہے وہ شک پر تفتیش شروع کرتی ہے اور قاتل کو ڈھونڈ نکالتی ہے جب معلوم کیا ایک بلائنڈ قتل کیس اب پولیس والوں نے جب کام والی سے پوچھا اس نے بتایا یہ محلہ دار آدمی اس وقت موجود تھا جب وہ کام ختم کرکے گئی پولیس والوں نے اس سے پوچھ گچھ کی تو اسکے بیانات مشکوک لگے پولیس اس محلہ دار لڑکے کو پکڑ کر پولیس اسٹیشن لے گئی پینتالیس برس کا یہ محلہ دار ادھیڑ عمر آدمی نشہ کا عادی نکلا گھر والوں سے مایوس یہ بوڑھی خاتون کے پاس آتا اور ان سے پیسے مانگتا یہ کہہ کر اسکی ماں بیمار ہے علاج کرانا ہے اماں جی پیسے دے دیتیں یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور ہزاروں تک جاپہنچا دوران تفتیش قاتل نے بتایا اور جرم بھی قبول کرلیا بقول اس مجرم کے یہ آئس کا نشہ کرتا ہے اس روز رات کو دو بجے یہ اماں جی کے گھر گیا ان سے پیسے مانگے انہوں نے کہا جب پنشن ملے گی تب دونگی ابھی نہیں ہے اس نے اماں جی کا سونے کا کڑا نکالا اور ان کو دھکا دیا اور اس دھکے کی وجہ سے اماں کا سر بیڈ کے سرہانے سے ٹکرایا اور چوٹ گہری لگی اس جنونی نے پیسے کی خاطر اماں جی کے سر کو کئی مرتبہ غصے میں مارا ایک نشئی اپنا شدید ردعمل غصے کی حالت میں ایسا ہی کرتا ہے اماں کو قتل کرکے یہ ان کا دروازہ بند کرکے بھاگ گیا گھر جاکر خون کے دھبے لگے کپڑے بدلے اور سمجھا وہ بچ گیا ہے اوراس قاتل کو پولیس نے قتل کے دو روز میں ہی پکڑ لیا قارئین کرام اس سچی کہانی سے سبق ملتا ہے اپنی اولاد جب ماں باپ کو نظر انداز کردے تو ان کی جان بھی جاسکتی ہے اولاد کو شائد ماں و باپ کا مرا ہوا چہرہ بھی نہ دیکھنے کو نہ ملے !
محترم قارئین کیونکہ میرا دل انتہاء خراب ہو چکا ہے روحانی و فلکیاتی کالمز لکھ کر میں اپنا وقت برباد کرتا رہا عام فہم سادہ وظائف و عملیات اور ٹوٹکے سب آپ کی خاطر لکھتا رہا اس کا صلہ مجھ کو جو دیا گیا وہ انتہاء برا تھا آج تک آپ میں کسی کو نہ ہی پیسوں کا تقاضہ کیا نہ ہی میرا کوء ذاتی مفاد یا لالچ اس سے وابسطہ تھا شائد کسی شریف النفس کو ادراک ہوجائے اور اگر نہ بھی ہو تو ٹھیک ہے یہ جو بدلائو آپ کو تحریر میں دیکھ رہے ہیں یہ احتجاجی ہے ہوسکتا ہے مرشد کا حکم و مرضی ہوء تو دوبارہ لکھنا شروع کردوں لیکن میرا ارادہ تو بالکل ہی ترک کردینے کا جس روذ بھی نعم البدل مل گیا جو یہ کام سنبھالے تو میں آپ سے اجازت چاہوں گا یہ مجھے پاکستان نیوز کی پرانی رفاقت اور مجیب لودھی بھاء کی محبت ہے جو لکھنے پر مجبور کیئے ہوئے ہے میری دعا ہے ہر انسان کلمہ جو جو کہیں بھی بس گیا ہو اس کو اہل و عیال کو اس کے ماں باپ کو اللہ پاک عزت کی ذندگی عطا فرمائے اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوں تو بھی عزت کے ساتھ جب ان کا سانس کا رشتہ ختم ہو تو اولاد ساتھ ہو وہ عزت سے انکی آخری رسومات ادا کرے کہ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے،پیدا ہوا ،جوان ہوا، گھر بسایا ،ذمہ ادری نبھائی اور اس دنیا سے رخصت ہوگیا ،ایک دن چپ چاپ آپ سے ملتے ہیں اگلے ہفتے کسی نئی کہانی یا موضوع کے ساتھ انشا اللہ اپنی دعائوں میں یاد رکھیے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here