استحکام پاکستان کے لئے درکار قومی یکجہتی!!!

0
52

یوم پاکستان کے موقع پر فوجی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ قوم مایوس نہ ہو پاکستان کو خود کفیل بنانے کے لئے حکومت پر عزم ہے۔وزیر اعظم ، سروسز چیفس اور سعودی وزیر دفاع کی موجودگی میں صدر مملکت نے کہا کہ کسی کو پاکستان کو غیر مستحکم نہیں کرنے دیں گے۔صدر مملکت نے خطے میں عدم استحکام کی بڑی وجہ کشمیر پر بھارتی قبضے کو قرار دیا۔صدر مملکت کا یہ کہنا بجا ہے کہ بڑے تنازعات کی موجودگی میں جنوبی ایشیا اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جارہا ہے۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں حالات بہتر بنانے کے لئے سیاسی قوتوں کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔کم از کم معاشی اور سیاسی استحکام کی ذمہ داری تو سیاسی جماعتوں کو اٹھانی پڑے گی ۔ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے۔ قرضوں کی بڑھتی ہوئی سطح، مسلسل تجارتی خسارے، سیاسی عدم استحکام اور سرمایہ کاری کی کمی نے پاکستانی معیشت کے لیے ایک منہ زور طلاطم پیدا کر دیا ہے۔دیگر اہم مسائل میں معیشت کے زوال پذیر شعبوں کی تنظیم نو، سرکاری اداروں کی نجکاری جو خسارے میں چل رہے ہیں۔ معیشت کا ایک اور پہلو جس پر توجہ کی ضرورت ہے وہ ہے مہنگائی اور اشیائے خوردونوش اور گھریلو ضروریات کے دیگر سامان کی قیمتوں میں اضافہ مسلسل اضافہ ۔عام آدمی کا کرب اس وقت بڑھ جاتا ہے جب حکومت اسے اپنی بے بسی کا بتاتی اور سارا ملبہ عالمی اداروں پر ڈالتی ہے ۔حکومت نئے شعبوں کی بات کرتی ہے لیکن ان سے استفادہ نہیں کر پا رہی ۔ زیادہ مالی شراکت داری اور ٹیکنالوجی عام کرنے سے پاکستان کو اپنی ای کامرس صلاحیت کو بروئے کار لانے میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کو ہنر، تعلیم، صحت اور شعوری ترقی میں سرمایہ کاری کرکے اپنی محنت کے معیار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔عدم اسحکام کی ایک وجہ پاکستان میں بدعنوانی ہے۔ سیاسی اشرافیہ سے لے کر عدلیہ، پولیس، صحت کی خدمات اور تعلیم تک ہر شعبے میں بدعنوانی پھیلی ہوئی ہے۔بدعنوانی معاشی فیصلہ سازی کو مسخ کرتی ہے، سرمایہ کاری کو روکتی ہے، مسابقت کو کمزور کرتی ہے اور بالآخر، کسی ملک کی اقتصادی ترقی کو کمزور کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مسائل دیرینہ ہیں اور اصلاحات کے لیے مطالبات کمزور ۔ 1947 میں اپنے قیام کے وقت، پاکستان کی ثقافتی اور مسلکی طور پر متنوع ریاست میں یکجہتی پیدا کرنے والی قوت کا فقدان تھا ۔نتیجہ یہ کہ ریاست اور فرد کے درمیان جلد عمرانی معاہدہ نہ ہونے سے ملک سیاسی بحران میں ڈوب گیا۔ بدعنوانی اور آپس کی لڑائیوں نے مرکزی حکومت کو کمزور کیا۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں، اور صوبائی رہنماوں نے طاقت پکڑی۔ 1958 میں، پہلا مارشل لا لگا اور اگلے تیرہ برسوں میں اقتدار اسی کے پاس رہا۔ آمرانہ قوتوں نے 1971 میں پاکستان کو سویلین حکمرانی واپس کر دی، ملک نے 1977 سے 1988 اور 1999 سے 2007 تک مارشل لا حکمرانی کے مزید ادوار کا تجربہ کیا۔آمر ڈی فیکٹو پاور بروکر رہے، اتحادوں اور حکومتوں کو تشکیل دینے اور تحلیل کرنے کے باوجود مسائل کم نہ ہو سکے۔ نتیجتا، آزادی کے بعد سے پاکستان کے انتیس وزرائے اعظم میں سے کسی نے بھی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی۔بھارتی بد نیتی کے باعث پاکستان مجبوری میں کشمیر تنازع کا حصہ بنا ۔یہ ملی غیرت، بھائی چارے اور صدیوں کے مراسم کا تقاضا تھا۔لیکن افغانستان کے معاملات میں غیر ضروری طور پر الجھنا عالمی طاقتوں کی چال بازیوں میں پھنسانے کا سبب بنا۔ان قوتوں کے زیر اثر علیحدگی پسند اور انتہا پسند تحریکوں نے سیاسی استحکام کے حصول کے لیے پاکستان کی جدوجہد کومتاثر کیا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں تحریک طالبان پاکستان ہے۔ یہ 2007 میں عسکریت پسند تنظیموں کو متحد کرنے کے لیے ایک تحریک کے طور پر قائم کی گئی جس کا تعلق زیادہ تر شمال مغربی سرحدی علاقیسے ہے، جسے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (FATA) کہا جاتا رہا ۔اب یہ علاقے کے پی کا حصہ ہیں۔ ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی آپریشن 2002 میں اس وقت شروع ہوا جب 2001 میں افغانستان پر حملے کے دوران غیر ملکی عسکریت پسند اس علاقے میں آ گئے۔ اس کے بعد سے، فوج نے وقتا فوقتا ٹی ٹی پی کے خلاف بڑے آپریشنز شروع کیے ہیں، عسکریت پسندوں نے افغانستان کے ساتھ غیر محفوظ سرحد اور طالبان سے تحفظ سے فائدہ اٹھایا ہے۔ٹی ٹی پی انتہائی غیرمرکزی ہے، اس کے دھڑے اکثر پالیسی پر متفق نہیں ہوتے ، لیکن اس کے بنیادی مقاصد میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز سے لڑنا، افغانستان میں مغربی مفادات کے خلاف مزاحمت، اور اس کے علاقوں میں اپنی تشریح کردہ شریعت کا نفاذ شامل ہے۔ قیادت کی تبدیلیوں نے ٹی ٹی پی کی حکمت عملیوں کو بھی بدل دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ القاعدہ کے قریب ہوتی گئی ۔اس سورتھال سے نمٹنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان اور نیکٹا جیسا ادارہ قائم کئے گئے۔حالات میں بہتری کے لئے ان سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔معاشی بحران کو ختم کرنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ تجارتی لبرلائزیشن مسابقت کو فروغ دیا جائے۔یہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر سکتی ہے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دے سکتی ہے۔ معاشی ترقی کے لیے انسانی سرمائے پر سرمایہ کاری بہت ضروری ہے۔ پاکستان کو تعلیم اور ہنر کی ترقی کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ جدید معیشت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل افرادی قوت پیدا کی جا سکے۔عدم استحکام کے چیلنجز کا مقابلہ صرف حکومت یا ادارے نہیں کر سکتے اس کے لئے پوری قوم کی حمایت درکار ہوتی ہے۔حکومت اگر اس ضمن میں کوئی پیشرفت دکھائے تو ملک میں استحکام آ سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here