امریکی رائے دہنگان بھی اپنی قسمت کو کوستے ہیں جب وہ اپنے ملک کے منتخب شدہ صدر کو دیکھتے ہیں. وہ سوچتے ہیں کہ اِس شخص کو تو کسی ادارے میں دفتری کی ملازمت کرنی چاہیے تھی یا نہیں تو ٹرین اسٹیشن پر ٹوکن کلرک کی خدمت بجا لانا چاہیے تھا، اِن دونوں کاموں کی انجام دہی کرتے وقت وہ باآسانی اونگھ سکتا تھا. کوئی میٹرو کارڈ خریدنے آتا تو وہ اُسے غضبناک آنکھوں سے دیکھتے ہوے کہتا کہ جاؤ ٹکٹ مشین سے لے لو. صارف بیچارا سوچتا کہ آخر تم یہاں کیوں حرام خوری کر رہے ہو؟ دفتری کا عہدہ تو مخصوص ہی ہوتا ہے ریٹائری کیلئے، اور امریکا صدر بھی آفیشئلی ریٹائرڈ ہے ، 79 کے لگ بھگ ہے، سائڈ سے سوشل سکیورٹی بھی لیتا ہو تو اِسکا ہمیں کیا پتا؟ ریٹائرڈ تو میں بھی ہوں، اِسی لئے جب بھی میری بیگم مجھے کچھ کام کرنے کو کہتی ہیں تو میں برملا یہی جواب دے دیتا ہوں کہ ” نہیں جی میں ریٹائرڈ ہوں، اپنے بیٹے سے کہہ دو” . میری بیگم غصے میں مجھے دیکھتے ہوے کہتی ہیں کہ میں تمہارے پِنگ پانگ کے ٹیبل کی ٹانگ توڑ کر رکھ دوں گی.پھر بات ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ جب لوگ جو بائیڈن کو یہ تجویز دینے آئے تھے کہ تم امریکا کے صدر کے انتخاب لڑنے کیلئے کھڑے ہوجاؤ، اور ملک کا بیڑا غرق کردو، تو پھر آخر اِس شخص نے رضامندی کیوں ظاہر کردی تھی، آخر اِس شخص نے سوچا کیوں نہ تھا کہ دنیا میں امریکا کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں، دنیا کے حالات روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہو جاتے ہیں، کیا اِس شخص میں اتنی صلاحیت تھی کہ وہ اِن بدلتے ہوے حالات سے بنرد آزما ہو سکتا تھا کہ بعض امریکی صدر تو 24 گھنٹے میں پل بھر بھی نہیں سوتے تھے۔ لیکن امریکی صدر جو بائیڈن تقریر کرتے وقت بھی سوجاتا ہے، اور اُسکی سیکرٹری اُسے کہنی مار کر مسلسل جگاتی رہتی ہے، خواب آور کو ختم کرنے کی دوا لال مرچی ہوتی ہے لہٰذا جب آپ دور دراز کی ڈرائیو کر رہے ہوں تو ڈوریٹوز اسپائسی جپس کی ایک پیکٹ خرید لیا کریں یہ نیند سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک آزمودہ طریقہ ہے، گورے تو اسپائسی چیزیں کھانے سے بھی گھبراتے ہیں . ورنہ بائیڈن یوں سرے عام نہ اونگھتا پھرتا.حالانکہ دنیا کی سب سے زیادہ تیتی مرچ کیرولینا ریپر ساؤتھ کیرولینا میں پیدا ہوتی ہے، اب آپ امریکی صدر جو بائیڈن کی گذشتہ ہفتے کی تقریر کے متن کی ہی نظر ثانی کر لیں جو اُنہوں نے اپنی گلو خلاصی کیلئے دی تھی اور جس میں اُنہوں نے اِنفلیشن کی ذمہ داری پینڈیمک اور یوکرین پر روسی حملے کے ڈال دی تھی. سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ ہر حلقہ سے یہ آوازیں اُٹھ رہیں ہیں کہ امریکی حکومت جس کے سربراہ جو بائیڈن ہیں اُنہیں کیا ضرورت پڑگئی تھی کہ وہ نئی نئی نوٹیں چھاپ کر 40 بلین ڈالر یوکرین کی نااہل حکومت کے حوالے کردیں ، اور اُس کے سر براہ کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے یہ فرمادیں کہ اور بھی رقمیں آرہی ہیں، گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ، تمہارا ملک جب تک کرہ ارض سے نہیں مٹتا اُس وقت تک ہم امداد جاری رکھیں گے. صدر بائیڈن کو امریکی عوام کی کوئی پروا نہیں ، اُنہیں اِس بات کی بھی پروا نہیں کہ امریکی مائیں بے بی فارمولا خریدنے کیلئے در در ماری پھر رہیں ہیں، لوگ گیس پمپ پر جاکر رو رہے ہیں. آج تک میں نے امریکا میں نصف صدی تک رہنے کے باوجود گیس کی اتنی ہوشربا قیمت نہیں دیکھی ہے.افسوس صد افسوس کا مقام یہ ہے کہ جناب صدر جو بائیڈن امریکی عوام کو مستقبل میں حالات کے درست ہونے کا کوئی عندیہ بھی نہیں دے رہے ہیں، مطلب اِس کا یہ ہے کہ جب تک اُنکا منحوس سایہ امریکا کے طول وعرض پر منڈلاتا رہیگا اُس وقت تک امریکی عوام مہنگائی کی گھن چکر میں پستے رہیں گے۔
صدر جو بائیڈن کو امریکی عوام کیا اپنے بیٹے ہنٹر بائیڈن کی بھی فکر نہیں جو لوگوں سے قرض لینے کیلئے لاس اینجلس سے نیویارک کا چکر لگارہا ہے، نیویارک ٹائمز میں یہ خبر شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوئی ہے کہ امریکی صدر کے کے چشم و چراغ ہنٹر بائیڈن فیڈرل ایجنٹوں کے نرغے میں ہیں اور اُن سے نجات حاصل کرنے کیلئے وہ ہالی ووڈ کے ایک انتہائی مالدار وکیل اور ساتھ ہی ساتھ ناول نگار کیوِن مورِس کے زیر شفقت میں ہیں، ہنٹر بائیڈن نے اپنے وکیل کو کوئی رقم دینے کے بجائے خود اُس سے 2 ملین ڈالر کی رقم اپنی فیملی کی کفالت اور بقایا ٹیکس کی ادائیگی کیلئے لے لی ہے، ہوسکتا ہے یہ محض دکھاوے کیلئے ایک ڈرامہ ہو ، ورنہ متعدد مرتبہ یہ خبریں میڈیا کی شہ سرخی بنی ہیں کہ ہنٹر بائیڈن یوکرین کی حکومت سے لاکھوں لاکھ ڈالر کنسلٹنگ فیس کے بہانے اینٹھ کر امریکا لایا تھا، اور اُس پر کوئی ٹیکس کی ادائیگی بھی نہیں کی تھی۔ امریکی صدر کے صاحبزادے کریک اور کوکین کا نشہ کرنے کے بھی عادی ہیں اور فی الحال اپنی سابقہ بیوی کو طلاق دے کر ایک خوبصورت اور 32 سالہ یہودی خاتون سے شادی کر لی ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹیکس کی نہ ادائیگی اور کنسلٹنگ کے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر آیا جو بائیڈن نذر زنداں ہوتے ہیں یا نہیں؟
قطع نظر بے شمار قابل اعتراض عادتوں کے رسیا ہنٹر بائیڈن ایک مصور بھی ہیں اور ابھی حال میں اُن کی پینٹنگ کی نمائش نیو یارک کے ایک آرٹ گیلری میں منعقد ہوئی تھی، یہ ایک حیران کُن امر ہے کہ بعض اُن کی پینٹنگ کی قیمت 75 ہزار سے نصف ملین ڈالر تک تھی جس کی وجہ کر وائٹ ہاؤس میں ایک بھونچال آگیا تھااور فیڈرل ایجنٹوں نے یہ حکم دیا تھا کہ تمام خریداروں کی ایک فہرست مرتب کی جائے۔