امریکی آزادی بن گئی بربادی

0
102
رمضان رانا
رمضان رانا

اگرچہ امریکی آئین میں پہلی ترمیم کے تحت انتہائی آزادیوں کی ضمانت دی گئی ہے کہ امریکی شہریوں کا حق تحریر۔تقریر۔اجتماع۔مذہبی۔حکومتی مداخلت کی بندش پٹیشن انسانی شہری اور بنیادی حقوق شامل ہیں۔جس کے خلاف کانگریس یا کوئی دوسرا ادارہ قانون سازی نہیں کرسکتا ہے۔جس میں شہری اور غیر شہری ہونا لازم نہیں ہے جس کا اطلاق حکومت تک ہے مگر نجی اداروں کے ضابطوں اور اصولوں پر نہیں ہے۔پہلی ترمیم میں کسی شہری سے بزور طاقت یا دبائو میں حاصل شدہ تمام اطلاعات کالعدم تصور ہوتی ہیں جس کے علاوہ طلبا امریکن پبلک اسکولوں میں اپنی اپنیPRAYادا کرسکتے ہیں۔جس میں اسکول کے ملازمین اور ٹیچر مداخلت نہیں کرسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ مگر وہ آزادی جو حکومت کے احکامات اور عوامی اصلاحات کے راستے میں حائل ہوجائے اسکے خلاف سپریم کورٹ نے1905میں چیچک وبا کے خلاف فیصلہ دیا تھا کہ حکومت وبا کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اور طبی اصلاحات نافذ کرسکتی ہے جس کی روح سے آج بھی کوئی بھی ریاست کی انتظامیہ موجودہ کرونا وبا میں احتیاطی تدابیر کے تحت اپنے شہریوں کے خلاف قوانین بنا سکتی ہے۔جس میں اجتماع یا چلنا پھرنا ممنوعہ ہوسکتا ہے جیسا کہ لاک ڈائون، ماسک کا پہننا یا وبا کے خلاف ویکسین لگانا لازمی قرار دے سکت یہے چاہے وہ دیکھتی ادارہ ہو یا نجی انتظامیہ شہریوں سے کرونا وبا کے حفاظتی ٹیکسوں کا کولازم قرار دے سکتی ہے تاکہ وہ مرض جو وبا کی شکل میں دوسرے شہریوں کو متاثر کرسکتا ہے اسے روکا جائے۔جو انسانی آزادی کے خلاف نہیں انسانی جان بچانے کی حفاظتی تدابیر ہے۔جس طرح جنگ کی حالت میں راتوں کو بلیک آئوٹ یا طوفان میں علاقوں کو خالی کرانا یا جس کے لیے ایمرجنسی اقدام اٹھانا لازم ہوتے ہیں جس سے انسانوں کی زندگی کو بچایا جاتا ہے اسی طرح آج موجودہ درپیش کرونا وبا جو دن بدن نئی نئی شکل میں رنگ بدل رہی ہے۔اس پر قابو پانے کے لیے جدید ادویات کا استعمال کرنا لازم ہے۔تاکہ وبائی مرض کو روکا اور انسانوں کو بچا لیا جاسکے۔جو آزادی کے خلاف قدم نہیں ہوگا۔تاہم امریکی آزادی بن گئی بربادی میں جس کا اظہار امریکہ کے مختلف ریاستوں میں کیا جارہا ہے۔کہ جس میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ ماسک پہننا یا ویکسین لگوانا میری آزادی کے خلاف ہے جو نہایت احمقانہ اور جاہلانہ ردعمل ہے یہ جانتے ہوئے کہ آج دنیا بھر میں کروڑوں انسان بیمار اور لاکھوں جاں بحق ہوچکے ہیں۔جس میں اب تک بیس کروڑ انسان بیمار اور بیالیس لاکھ مر چکے ہیں۔صرف امریکہ میں ساڑھے تین کروڑ بیمار اور چھ لاکھ سے زیادہ موت کی نیند سو چکے ہیں جبکہ بھارت اور برازیل دوسرے نمبر پر ہیں۔یہاں9لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔جبکہ متاثرین کی تعداد کروڑوں میں ہے مگر پاکستان کے متاثرین اور بیماروں اور اموات کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔لیکن انسان روز بروز موجودہ بین الاقوامی دنیا میں پھیلے ہوئے وبا سے مر رہا ہے۔جس کا دفاع احتیاطی تدابیر کے علاوہ موجودہ ویکسین ہے جس کا استعمال روز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے۔امریکی وہ ریاست جہاں ویکسین لگوانے کی کمی ہے جس کے خلاف لوگوں کا ردعمل زیادہ آرہا ہے وہاں کرونا وبا کی نئی شکل ڈیلٹا انڈین ویرینٹ پھیلتا ہوا نظر آرہا ہے یہاں زیادہ بیماراور اموات واقعہ ہو رہی ہیں یہ جانتے ہوئے کہ یہ وبائی مرض ہے جو ملنے جلنے اجتماعی جلسوں اور جلوسوں ریسٹورنٹوں میں کھانے پینے میں سانس کے خلا ایک دوسرے کو بیمار کر رہا ہے۔جس میں کمزور دفاعی جسمانی نظام سے انسانوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں جس کے خلاف مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی احتیاطی تدابیر اور ویکسین استعمال کا طریقہ کار ناکام ہورہاہے۔کیونکہ بعض ریاستوں اور علاقوں میں عوام کی گمراہی اور سیاسی ہٹ دھرمیوں سے یہ کرونا وبا مزید پھیل رہا ہے۔جبکہ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے سب سے پہلے اپنی دفاعی ویکسین بنا ڈالی جس کا استعمال پچھلے سال نومبر سے جاری ہے جو اب تک195ملین تک پہنچا ہے۔جبکہ امریکہ میں وافر مقدار میں ویکسین دستیاب ہے مگر لگوانے والے اب بھی کروڑوں انسان میسر نہیں جو مختلف حیلوں، بہانوں یا گمراہی کے شکار ہوچکے ہیں۔جن کی ویکسین نہ لگانے پر دوسرے شہری بیمار اور مر رہے ہیں۔جو انسانیت کے خلاف جرم ہے جس کا کوئی بھی قانون اجازت نہیں دے سکتا ہے کہ ایک وبائی مرض جو ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیل رہا ہے اسے کس طرح روکا جائے۔جس کو انسانی آزادی قرار دینا نہایت غیر انسانی عمل ہے جس کے خلاف دنیا بھر کا کوئی قانون آڑے نس آتا ہے ماسوائے وہ لوگ جن کو موجودہ ویکسین سے شدید الرجی ہو جس کا میڈیکل پروفیشنل فیصلہ کرنے میں کہ فلاں شخص کے لیے یہ ویکسین نقصان دہ ہے مگر اکثریت اس ویکسین سے اپنے اوپر برپا کھونے والی وبائی مرض پر قابو پاسکتی ہے۔بشرطیکہ وہ سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کے مشوروں پر عمل کریں۔اس لیے آزادی آڑ میں ایک شخص دوسرے شخص کو بیمار نہیں کرسکتا ہے جو آزادی نہیں دوسرے کے لیے بربادی ثابت ہوگی۔بہرحال جب تک امریکی یا دوسرے ملکوں کے تمام شہریوں کو مکمل ویکسین نہیں لگائی گئی تو یہ وبا بار بار اٹھے گی جو لوگوں کے جانوں کا زیاں کرتی رہے گی۔بہتر یہی ہے کہ ریاستوں کو اپنے اپنے شہریوں کو ویکسین لگوانا لازم قرار دیں چاہے حکومتوں کو عوامی ردعمل سے گزرنا پڑے تاکہ کرونا وبا پر بھی اسی طرح قابو پایا جائے جس طرح چچک، کوڑھ پولیو، ٹی بی، تپ دق، ملیریا، طاعون، فلو یا دوسری وبائی امراض پر قابو پایا گیا یا پایا جارہا ہے جس کیلئے ویکسین قانون سازی کرنا ہوگی ورنہ دنیا بھر میں خوف وہراس جاری رہے گا۔جس سے بین الاقوامی تجارت اور معیشت شدید نقصان پہنچے گا۔اس لیے ویکسین لگانا تمام مسائل کا حل ہے جس کو اپنانا انسانی فرض بن چکا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here