چنانچہ میرا تبادلہ اخبار جہاں سے جنگ میں ہوگیا اور میں نے شکیل صاحب کی فرمائش اور رہنمائی میں سائنس وٹیکنالوجی کے صفحے”سائنس کی دنیا” کا آغاز کیا جو ہفتے میں ایک بار جمعے کو شائع ہوتا تھا۔اللہ کا کرم یہ ہوا کہ یہ صفحہ ایک ہی مہینے میں مقبول ومشہور ہوگیا اور جنگ کے قارئین اس کا انتظار کرنے لگے۔میرخلیل الرحمن اور میر شکیل نے مجھے اس صفحے کے لیے فری ہینڈ دیا ہوا تھا چنانچہ مجھ میں جو بھی صلاحیت اور تجربہ تھا اس کامیں نے بھرپور استعمال کیا۔میں اور میرے ساتھی چُن چن کر ایسے عنوانات اور موضوع تلاش کرتے تھے جو بظاہر خشک اور بور محسوس ہوتے تھے لیکن ہم ان کے عنوان کو دلچسپ بنا کر اور ان میں تصاویر شامل کرکے انہیں بارہ مصالحے کی چاٹ کی طرح دلچسپ اور چٹخارے دار بنا دیتے تھے۔سائنس وٹیکنالوجی کی کیفیت بھی اُبلے ہوئے(بوائلڈ) چاولوں جیسی اور خشک ہے البتہ اس میں نمک مرچ اور رائتہ ملا دیا جائے تو وہ اتنی ہی مزیدار اور چٹ پٹی ہوجاتی ہے۔سائنسی تحریر میں اگر شاعری،لٹریچر اور مزاحیہ جملوں کا تڑکا یعنی بگھار لگا دیا جائے تو اس کی دلچسپی اور کشش میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔مثال کے طور پر میرے پاس ایک مضمون آیا جس کا عنوان بیر تھا۔اگر وہ بیر کے عنوان سے شائع کیا جاتا تو اسے کوئی نہ پڑھتا۔ہم نے اس کی سرخی تبدیل کرکے یوں کردی”بیری کے درخت پر پتھر بلاوجہ نہیں آتے”مطلب یہ کہ جس گھر میں جوان لڑکی ہو وہاں رشتے آیا کرتے ہیں چنانچہ اس چکر میں لوگ بیر کا خشک مضمون پڑھ گئے۔اسی طرح گھریلو مکھی پر ایک مضمون آیا تو اس کا عنوان مکھی سے تبدیل کرکے یوں کر دیاگیا۔”مکھی کی دونوں آنکھوں میں آٹھ ہزار عد سے(لینسز) ہوتے ہیں۔”اس مضمون کے ساتھ میں نے الیکٹرون مائیکرو اسکوپ سے اتاری ہوئی مکھی کی تصویر بھی لگا دی جس میں مکھی کو ہاھی کے برابر دکھایا جاسکتا ہے۔اب بھلا کون بدذوق ہوتا جواس مضمون کو نہ پڑھتا۔ارضیات(جیالوجی)اورریاضی(میتھ میٹکس) سائنس کے بہت ہی خشک شعبے ہیں۔ارضیات پر ایک مضون آیا جو کنکروں، پتھروں پر تھا۔ظاہر ہے اس میں کئی کو کیا دلچسپی ہوسکتی تھی۔آپ میں سے جن حضرات نے چونے کے پتھر(لائم اسٹون)سے چونا بننے کا عمل دیکھا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ کس طرح پتھر کے گرم ہوکر پھٹنے اور پھول کی طرح کھل اٹھنے سے چونا بن جاتا ہے۔اس مضمون کے ساتھ پھول جیسے چونے کی تصویر بھی لگا دی گئی اور اس کاعنوان رکھا”پتھروں کے پھول”۔چنانچہ یہ مضمون بڑے شوق سے پڑھا گیا۔میری طرح یقیناً آپ کا بھی تجربہ ہوگا کہ بعض لوگ جو بظاہر بڑے خشک مزاج، اکھڑ اور بور نظر آتے ہیں۔اگر ان کے مطلب اور مزاج کی بات کی جائے اور وہ موڈ میں آجائیں تو ایسے ایسے شگوفے چھوڑیں گے کہ ساری بوریت اور کلفت دور ہوجائے گی۔اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال مشتاق احمد یوسفی صاحب کی ہے۔ان کے ہم وطن اور میٹرک کے کلاس فیلو جناب اے کے خاں نے اپنی سواغ عمری میں لکھا ہے کہ یوسفی صاحب اپنی تحریروں میں جتنے خوش مزاج، شگفتہ اور چُلبلے ہیں عام زندگی میں وہ اتنے ہی بور اور بدمزاج ہیں اگر آپ ان کے ساتھ ایک گھنٹہ بات کریں۔تو آپ کو یقین نہیں آئیگا کہ یہ وہی مشتاق احمد یوسفی ہیں یعنی آپ بڑا خراب تاثر لے کراُٹھیں گے۔اے کے خاں نے لکھا ہے کہ میں نے ان کے ساتھ ستر سالہ رفاقت میں انہیں صرف پانچ مرتبہ ہنستے ہوئے دیکھا ہے۔روشنی گزرنے کے تین واسطے(میڈیم)ہوتے ہیں۔ایک شفاف یعنی ٹرانسپیرینٹ دوسرا نیم شفاف(ٹرانس لیوسینٹ) اور تیسرا غیر شفاف(اوپیک) ریت کا ذرہ یعنی سلیکان غیر شفاف واسطہ ہے۔اور پہلے اسے بے کار اور بے مقصد سمجھا جاتا تھا۔لیکن جب اس سے سیمی کنڈکٹر اور ٹرانزسٹر تیار کیا گیا تو یہی بے کار اور فضول چیز انتہائی کارآمد ہوگئی۔آج کی دنیا میں کمپیوٹر، موبائل اور وینٹ کے ذریعے اس نے وہ رزگارنگی اور دلچسپی پیدا کردی ہے۔جس کا کوئی حساب نہیں۔کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آگے چل کر یہ کیا کیا گل کھلائے گا۔1979ء میں مجھے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی صاحب کا انٹرویو کرنے کا اتفاق ہوا۔ڈاکٹر صاحب بہت بڑے سائنس داں ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری، لٹریچر، مصوری اور موسیقی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک بڑا اور اچھا سائنس داں بننے کے لیے ان شعبوں سے گہرا تعلق رکھنا بھی ضروری ہے۔ان کا قول ہے کہ سائنس، شاعری اور مصوری میں حسن حٍُسن قدر مشترک ہے۔ڈاکٹر صاحب کہتے تھے کہ فنون لطیفہ کے بغیر زندگی ادھوری اور بے کیف ہے۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت۔احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات ڈاکٹر صاحب نے یاد دلایا کہ اٹھارہویں اور سترہویں صدی سے پہلے جتنے بڑے اور عظیم سائنس داں گزرے ہیں ان کا فلسفے،شاعری اور مصوری میں بھی اعلیٰ مقام تھا۔اسی طرح البرٹ آئن اسٹائن محض ایک سائنس داں نہیں تھے بلکہ انہیں شاعری اور لٹریچر سے بھی گہرا شغف تھا۔اردو میں سائنسی مضامین تحریر کرتے وقت سب سے بڑا مسئلہ اصطلاحات(ٹرمز) کا آتا ہے۔جیسے جیسے سائنس تیزی سے ترقی کرتی جارہی ہے۔اتنی ہی تیزی سے نت نئی اصطلاحات شامل ہوتی جاتی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی کی اردو اصطلات پر جامعہ عثمانیہ(حیدر آباد دکن)پنجاب اور کراچی میں بہت کام ہوا ہے۔لیکن یہ بھی ایک امر واقعہ ہے۔کہ انگریزی اصطلاحات کی جگہ سائنس کی اردو اصطلات اس طرح مروج نہیں ہوئیں اور لوگ ان سے مانوس نہیں ہوسکے جس طرح انگریزی اصطلاحات سے ہوتے ہیں۔فروری1981ء میں سائنس ڈائجسٹ کا آغاز کرتے وقت میرے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا۔ہمیں توسائنس کے ہر شعبے میں جدید ترین مضامین اور معلومات شائع کرنا تھیں۔اصطلاحات کے معاملے میں اردو داں طبقے میں دو حلقے ہیں۔پہلا حلقہ ہر انگریزی اصطلاح کا اردو ترجمعہ کرکے خالص اور بے داغ اردو کا حامی ہے۔لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ وہ اصطلاح مانوس اور مروج نہیں ہوپاتی۔اور عام لوگوں کو مفہوم سمجھنے میں بڑی دشواری ہوتی ہے۔یہ لوگ ٹیلیویژن کو دور درشن اور ٹیلی فون کو تلفزیون کرنے کے حامی ہیں۔جبکہ دوسرا حلقہ انگریزی اصطلاحات کو جُوں کا تُوں اختیار کرنے اور اپنا لینے کے حق میں ہے۔بظاہر تو یہ ایک آسان ساحل نظر آتا ہے لیکن اتنا آسان اور سہل نہیں ہے۔مثال کے طور پر ایٹم کی اصطلاح ہے۔اگریہ محض ایٹم کے طور پر استعمال ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔لیکن جب اس کے مشقات(derivatives)بنائے جائیں۔یعنی ایٹم سے ایٹمک انرجی، ایٹامسٹی، ایٹمائزیشن، ایٹمک نمبر وغیرہ تو پھر وہ اردو زبان کے بجائے کوئی اور ہی زبان ہوگی۔اور اس کی ساری نزاکت اور حسن غارت ہوجائے گا۔ایٹم کی اردو اصطلاح جوہر ہے اگر ایٹم کے ساتھ ساتھ جوہر کی اصطلاح بھی استعمال کی جائے تو پھر اس کے ڈیری ویٹوز بنانے میں آسانی ہوجائے گی۔جوہر سے جوہریت ،جوہرائیت، جوہری توانائی اور جوہری عدد وغیرہ اور یوں زبان کی خوبصورتی بھی برقرار رہتی ہے۔اصطلاحات کے مسئلے کا حل یہی ہے کہ آپ کچھ دیر تک اور کچھ دور تک اردو اصطلاح کے ساتھ ساتھ بریکٹ میں انگریزی اصطلاح بھی لکھ دیں۔اگر کسی کو اردو اصطلاح سمجھنے میں دقت ہو رہی ہے۔تو اس کے ساتھ ہی انگریزی اصطلاح بھی موجود ہے۔اس سے مفہوم واضح ہوجائیگا۔اس طرح قاری انگریزی اصطلاح کی وجہ سے اردو اصطلاح سے بھی مانوس اور آشنا ہوجائیگا۔میری پچپن سالہ سائنسی صحافت کا نچوڑ یہ ہے کہ سائنس وٹیکنالوجی کے کسی بھی شعبے کا کوئی مضمون ہو جس میں پندرہ سے بیس ہزار الفاظ ہوں اس میں اصطلاحات سو ڈیڑھ سو سے زیادہ نہیں ہوتیں۔ایسے مضمون میں سو ڈیڑھ سو اردو اصطلاحات کے ساتھ سو ڈیڑھ سو انگریزی اصطلاحات بھی ڈال دی جائیں تو اردو تحریر بھی گندی نہیں ہوگی اور مفہوم سمجھ میں نہ آنے کی شکایت بھی دور ہوجائے گی۔اردو اصطلاحات کو مروج کرنے اور ان سے مانوس کرانے کا بس یہی ایک طریقہ ہے۔1979ء کے وسط میں جب میں وجیہہ احمد صدیقی اور عطا محمد تبسم سائنس ڈائجسٹ کی اشاعت کا پروگرام بنا رہے تھے تو خود ہمارا ذہن اس سلسلے میں واضح اور صاف نہیں تھا۔سائنس کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی تھی لیکن جب اس میں ڈائجسٹ کا پیوند لگایا جائے گا تو کیا شکل بن کر سامنے آئے گی۔بہرحال چند شماروں کے بعد ہی پالیسی اور حکمت عملی طے ہوگئی کہ ہمیں سائنس کو انتہائی دلچسپ اور چٹ پٹے انداز میں عام فہم اور مقبول عام بنانا ہے۔ہمیں توقع نہیں تھی کہ اس جریدے کو اتنی جلدی اور اتنی ہمہ گیر پذیرائی حاصل ہوجائیگی۔اکیس سالوں کے دوران سائنس ڈائجسٹ کے کل119شمارے شائع ہوئے۔جدید ترین سائنسی معلومات اور مضامین کے ساتھ ساتھ اس میں بعض ایسے مضامین بھی شائع ہوئے جو ایم ایس سی سے اونچی سطح کے تھے۔علاوہ ازیں بعض خشک اور مشکل عنوانات پر بھی تحریر شائع ہوئیں۔جیسے پروٹان کی اندرونی ساخت، ڈی این اے کی اندرونی ساخت اور ایٹم کے بنیادی ذرات وغیرہ۔اصطلاحات کے معاملے میں ہم نے جو پالیسی وضع کی تھی اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کے دو دراز شمالی علاقوں سے تھی جہاں اردو بہت کم سمجھی اور پڑھی جاتی تھی کبھی یہ شکایت موصول نہیں ہوئی کہ مضامین سمجھ میں نہیں آتے۔اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ اگر سائنس وٹیکنالوجی کے مضامین کی پیش کش دلچسپ اور عام فہم ہو تو لوگ ان میں بھرپور دلچسپی لینے لگتے ہیں اشاعت کو تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ دفتر میں اس قسم کے خطوط آنے لگے تھے۔کہ پہلے ہم عام اور افسانوی ڈائجسٹ پڑھا کرتے تھے لیکن ہمیں جب سے سائنس کا چسکہ لگا ہے کوئی دوسرا ڈائجسٹ پسند نہیں آتا۔ہمارے بعض مضمون نگار ایسے بھی تھے جنہوں نے بطور مضمون سائنس نہیں پڑھی تھی لیکن اس کے مضامین پڑھ پڑھ کر ان میں اتنا شوق پیدا ہوگیا کہ وہ سائنسی مضمون نگار بن گئے اور بہترین مضامین تحریر کرنے لگے مثلاً محمد طیب خان سنگھانوی، محمد آصف امین خاں، محمد عرفان اور سید ندیم احمد، اشاعت کے دو سال بعد ہی جی ایچ کیو نے اسے ملٹری اسٹیشن لائبریریز کے لئے سب کرائب کرلیا تھا۔بریگیڈیئر صدیق سالک شہید نے مجھے بتایا کہ سائنس ڈائجسٹ جی ایچ کیو میں بڑے ذوق وشوق سے پڑھا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عام طور سے بریگیڈیئر سے اوپر رینک کے افسران اردو کی کتابیں اور رسالے کم پڑھتے ہیں لیکن وہ بھی سائنس ڈائجسٹ دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔جب غیر ممالک سے ملٹری وفود ہمارے ہاں خیرسگالی کے طور پرآتے ہیں تو ہم اسے اپنا رسالہ کہہ کر متعارف کراتے ہیں۔1980ء میں ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان آئے تو میر خلیل الرحمن صاحب نے روزنامہ جنگ کے لیے ان کا انٹرویو کروایا۔انٹرویو کے بعد جب اسٹیٹ گیسٹ ہائوس سے باہرآئے تو میر صاحب نے فرمایا کہ مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ یہ افسوس ہوا کہ میں نے سائنس نہیں پڑھی۔جناب عبدالوحید حسینی روزنامہ جنگ کے نمائندہ ہوکر دہلی گئے تو اپنے ساتھ دس بارہ شمارے بھی لے گئے اور نہیں پریس کلب آف انڈیا دہلی میں رکھوا دیا۔مارک ٹیلی جو تقریباً پچاس سال انڈیا میں بی بی سی کے نمائندے رہے تھے اور بہت اچھی اردو جانتے تھے پڑھنے کے لیے انہیں گھر لے گئے۔ایک ہفتے بعد انہوں نے وحید حسینی سے کہا کہ ہندوستان سے اردو میں سائنس وٹیکنالوجی کے اکیس رسالے نکلتے ہیں۔پاکستان کا یہ ایک رسالہ ان تمام رسالوں پر بھاری اور منفرد ہے۔واضح رہے کہ ہندوستان کے تمام رسالوں کو حکومت بیند گرانٹ دے کر ان کی مالی سرپرستی کرتی ہے۔
٭٭٭