دو خاندان یا دو سیاسی پارٹیاں!!!

0
115
رمضان رانا
رمضان رانا

پاکستان ٹوٹنے اور بنگال کے الگ ہونے کے بعد ملک میں دو بڑی پارٹیاں باقی رہ گئی تھیں جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کی اکثریت صوبہ پنجاب اور سندھ میں تھی جبکہ نیشنل عوامی پارٹی کی اکثریت صوبہ نارتھ ویسٹ فرینیٹر(پختونخواہ) اور بلوچستان میں اکثریت تھی، بھٹو کے دور میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگنے کے بعد پی پی پی سب سے بڑی پارٹی رہ گئی جو آخر کار جنرل ضیاء الحق کے مارشلاء کے ہاتھوں اقتدار کھو بیٹھی، جنرل ضیاء الحق کے ہوائی حادثے کے بعد پھر پی پی پی اقتدار میں آئی تو اس کو مسلم لیگ ن کا سامنا کرنا پڑا جو جنرلوں اور مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی تھی۔ جس پر نوازشریف کا قبضہ ہوگیا جب نوازشریف کا جنرل کاکڑ سے جھگڑا ہوگیا تو مسلم لیگ نون بھی پی پی پی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے مخالف پارٹی بن گئی جن کو پہلے دس سال تک آپس میں لڑایا گیا جب دونوں پارٹیوں کے سربراہوں بینظیر بھٹو اور نوازشریف کے درمیان میثاق جمہوریت طے پایا تو اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان پر ہاتھ رکھ دیا جن کی پرورش اور تربیت ایک جنرل گل حمید سے جنرل مشرف، جنرل پاشا، جنرل ظہیر السلام اور جنرل فیض حمید تک جاری رہی جو آج اپنے پیدا کردوں کے لیے درد سر بن چکا ہے۔ تاہم دونوں پارٹیوں کے خاندانوں کو باقاعدہ پروپیگنڈہ کے ذریعے بدنام کیا جاتا ہے کہ یہ دو خاندان ملک پر قابض ہیں۔ حالانکہ دونوں پارٹیوں کی اپنی پرانی ہسٹری بن چکی ہے۔ مسلم لیگ1906 میں بنائی گئی تھی جو خالق پاکستان کہلائی جو بعد میں1954میں پورے ملک میں انتخابات ہار گئی جس کے بعد مسلم لیگ جنرلوں کی مرہون منت بن کر رہ گئی جس کے ہمیشہ مختلف گروپ بنتے رہے جس پر جنرلوں کا غلبہ رہا ہے۔ نوے کی دہائی میں مسلم لیگ نون کا جھگڑا جنرل کاکڑ سے ہوا جو اب تک جاری ہے جس کی قیادت کو گزشتہ تیس سالوں سے کبھی جیلوں اور کبھی ملک بدر کیا جاتا ہے۔ جو آج بھی نواز شریف کی شکل میں ملک بدری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح پی پی پی کی پہلی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ دوسری قیادت بینظیر بھٹو کو سرعام قتل کیا گیا بھٹو کے دونوں صاحبزادوں کو بھی قتل کیا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ نون کی قیادتوں کی مسلسل قربانیاں دینا پڑی ہیں۔ دونوں پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹیاں بن چکی ہیں جن کو ختم کرنے کیلئے جنرلوں کی کوکھ سے پیدا کردہ عمران خان کو استعمال کیا جارہا ہے جس کی آج اسٹیبلشمنٹ خود شکار ہوچکی ہے کہ آج اسٹیبلشمنٹ کے بعض اسٹیبلشمنٹ اہلکار عمران خان کے نشانے پر ہیں جن کے آرمی چیف کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ جس کے بڑے خوفناک اثرات پیدا ہونگے۔ بہرکیف پی پی پی اور مسلم لیگ نون کی سیاسی عمریں کئی دہائیوں پر مشتمل ہیں جن کی قیادت اور کارکن بہت ذمہ دار بن چکے ہیں۔ جس نے گزشتہ پچاس سالوں میں بے تحاشہ قربانیاں دی ہیں جو مختلف سانحات اور حادثات سے گزری ہیں لہٰذا ان کو بدنام کرنے کیلئے دو خاندان کے نام پر رسوا کیا جاتا ہے یہ جانتے ہوئے دنیا بھر میں جمہوری ریاستوں میں سیاسی پارٹیوں کے وجود صدیوں پر مبنی ہیں جس میں پاکستانی، برطانوی، امریکی اور بھارتی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں جن کی وجہ سے مجوزہ ممالک جمہوریت کا پھل کھا رہے ہیں جن کی قیادتوں اور عہدیداران جان ایف کینڈی، رابرٹ کینڈی، اندرہ گاندھی، راجیوگاندھی سنجے گاندھی بھٹو، بینظیر بھٹو، مرتضٰے بھٹو، شاہ نواز بھٹو کو پھانسی اور قتل کیا گیا جنہوں نے مجوزہ ریاستوں میں انسانی شری بنیادی حقوق بحال کیئے۔ اپنے اپنے ملکوں میں اصلاحات نافذ کیں جس کی بدولت انسانوں کو حقوق ملے۔ اسی طرح مسلم لیگ نون کی قیادت کو خاندان سمیت جیلوں کی زینت اور ملک بدری نصیب میں ملی ہے ،لہٰذا خاندانوں کے شام پر سیاسی پارٹیوں کو بدنام کرنا نہایت غیر جمہوری رویہ ہے جو پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے پھیلا رکھا ہے جس کے شکار لاتعداد ہوچکے ہیں سیاستدان دو خاندانوں کے نام پر سیاسی پارٹیوں کا قلعہ قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔بہرحال سیاست کو گالی بنا دیا گیا ہے جس کا شکار دو پارٹیوں کو کیا جارہا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بنا سیاسی پارٹیوں ملک میں کوئی عمل جاری نہیں رہ سکتا ہے۔ جس کا تجربہ جنرلوں کے مارشلائوں کی شکل میں دیکھ چکے ہیں جو بنا سیاسی پارٹیوں کے حکمران بنے جنہوں نے ملک کا آئین پامال، معطل اور منسوخ کیا جس میں ایک بار ملک ٹوٹا ہے جو اب پھر سلامتی کے خطرات سے دوچار ہے۔لہٰذا پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کی مخالفت سیاسی ہونا چاہئے۔ پارٹیوں کے منشور سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر وجود سے نہیں اگر سیاسی پارٹی ہوگی تو قیادت ہوگی ،قیادت ہوگی تو خاندان ہوگا، جن خاندانوں کے لوگ سیاست میں حصہ لیں گے۔ یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہوگا کہ وہ کس سیاسی پارٹی کو پسند کرتے ہیں جو عوام کی طاقت کا ہتھیار ہوتا ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here