چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ویڈیو لنک پر جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے 26نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کا اعلان کر دیا ہے عمران خان نے کہا کہ راولپنڈی پہنچ کر وہ خود مارچ کی قیادت کریں گے اور اگلا لائحہ عمل دیں گے۔انہوں نے کہا کہ صاف و شفاف انتخابات ملکی مسائل کا واحد حل ہیں۔دوسری طرف وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کے مارچ کو اہم تعیناتی کا عمل سبوتاژ کرنے اور ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے دھرنا ایک ہفتے کے لئے موخر کرنے کا کہا ہے۔بلاول بھٹو نے اپنی پریس کانفرنس میں صدر مملکت کے بارے میں سخت لہجہ اپنایا۔عمران خان کے راولپنڈی جانے کے اعلان اور بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالیہ دنوں مفاہمت او مشاورت کی جو کوششیں کی گئی ہیں پیپلز پارٹی ان سے الگ تھلگ ہے یا پھر کچھ معاملات میں اس سے تاحال مشاورت نہیں ہو سکی۔بہرحال اہم مواقع پر سیاسی لہجے کو تلخ بنانا پہلے فائدہ مند رہا نہ مستقبل میں اس سے کچھ حاصل ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف واحد اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔سادہ اکثریت سے حکومت بنانے کے لئے اسے مزید ووٹ درکار تھے جو ایم کیو ایم ق لیگ اور جی ڈی اے کو اتحادی بنا کر حاصل کر لئے گئے۔ بلوچستان سے سردار اختر مینگل نے بھی بطور وزیر اعظم عمران خان کی حمایت کی۔اپریل 2022 کو جب عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو قومی اسمبلی میں اختر مینگل ،ق لیگ اور ایم کیو ایم نے اپوزیشن کی حمایت کا فیصلہ کیا۔البتہ جی ڈی اے عمران خان کے ساتھ رہا۔ تحریک انصاف کے چند اراکین نے منحرف ہو کر اپنا ناراض گروپ بنا لیا جس کے سربراہ راجہ ریاض ہیں۔تحریک انصاف کے باقی اراکین نے تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے استعفوں کا اعلان کر دیا۔ یہ نظام کس قدر ابہام پیدا کر رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے چھ ماہ سے سپیکر قومی اسمبلی کے پاس پی ٹی آئی اراکین کے استعفے پڑے ہیں لیکن انہوں نے ان 11حلقوں سے منتخب اراکین کے استعفے منظور کئے جن کے مخالف امیدوار چند سو ووٹ سے ہارے تھے۔غالبا نیت یہ رہی کہ اب 13سیاسی جماعتیں مل کر پی ٹی آئی کو ضمنی انتخابات میں ہرا دیں گی۔ پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات نے بتا دیا کہ ووٹر حکومت تبدیلی کے عمل سے خوش ہیں اور نہ پی ڈی ایم کو اقتدار کا مینڈیٹ دینے پر آمادہ ۔ اقتدار سے نکالے جانے کے بعد عمران خان نے شہر شہر جلسوں کا انعقاد شروع کر دیا۔ایک سیاست دان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس وقت اپنی عوامی حمایت کا مظاہرہ کرے جب اس پر کسی طرح کا دبائو یا مشکل وقت آئے۔ عمران کا فیصلہ اس لحاظ سے اہم تھا کہ انہوں نے اپنی حکومت بحال کرنے کی بجائے نئے انتخبات کا مطالبہ کر دیا۔ پی ڈی ایم اقتدار میں آنے سے قبل بلند بانگ دعوے کرتی رہی ہے۔ 7ماہ ہونے کو ہیں اس دوران پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی کسی ایک شعبے میں بھی قابل ذکر نہیں۔معیشت کا حال اس قدر خراب کر دیا گیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکانات کا تجزیہ کر رہے ہیں۔پی ڈی ایم حکومت کے پاس بظاہر حکومت میں رہنے کا جواز ختم ہو چکاہے۔عالمی ادارے اور دوست ممالک پاکستان میں رونما سیاسی تبدیلیوں سے واقف ہیں ان کی دلچسپی آنے والی حکومت کے ساتھ دو طرفہ معاملات کو ازسرنو ترتیب دینے میں بڑھ رہی ہے۔ عمران خان نے حکومت سے نکلنے کے بعد احتجاج کو سیاسی مقبولیت حاصل کرنے اور سیاسی مخالفین کو غلط ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا۔وہ اس حکمت عملی میں کافی حد تک کامیاب رہے۔ لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان ظاہر کرتا تھا کہ عمران دو تین اہم معاملات پر بیک وقت اپنی مقبولیت کا دبائو ڈالنا چاہتے تھے۔وزیر آباد میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا۔اس حملے کے دوران وفاقی حکومت کے اہم اراکین کے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔عمران خان کا بظاہر ایک ہی مطالبہ بار بار سامنے آتا رہا ہے کہ عوامی حمایت سے محروم پی ڈی ایم حکومت ملک میں فوری انتخابات کا اعلان کر دے۔پی ڈی ایم کے لئے ایک دوہری مصیبت یہ بن چکی ہے کہ سیاسی بساط پر تمام چالیں اس کے خلاف جا رہی ہیں۔حکومت تحریک انصاف کا مارچ روکنے کے لئے اب تک دھمکیوں فورس کے استعمال اور جبر کے ہتھکنڈوں پر انحصار کرتی رہی ہے اس لئے لانگ مارچ کے شرکا کی جانب سے شدید مزاحمت کے خدشات جنم لینے لگے ہیں۔اب تک کوئی ایسی سنجیدہ کوشش ذرائع ابلاغ کے سامنے نہیں لائی گئی جس سے معلوم ہو کہ فریقین بات چیت کے ذریعے معاملہ سلجھانے میں سنجیدہ ہیں۔ عمران خان کی جانب سے 26نومبر کو راولپنڈی پہنچ کر مارچ کی قیادت سنبھالنے تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہو گا۔امید کی جا سکتی ہے کہ اہم تعیناتی کا معاملہ نمٹ چکا ہو گا۔اس سے ڈور کا ایک سرا سلجھ جائے گا لیکن دوسرا سرا بدستور قبل از وقت انتخابات سے جڑا رہے گا۔ حکومت نے مارچ کے شرکا کا مطالبہ نہ مانا تو بگڑتی معیشت مزید خراب ہو سکتی ہے۔اس لئے تمام فریقین کے لئے بہتر حل یہی ہے کہ نئے انتخابات کا اعلان کر کے ملک میں موجود عدم استحکام کا سلسلہ ختم کر دیا جائے۔
٭٭٭