امام حسین کے اصحاب وانصار کی قدرومنزلت!!!

0
16
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

امام حسین علیہ السلام کے اعوان واصحاب وانصار کی وفا منفرد ، محبت لازوال اور ایثار کم نظیرنہ تھا وہ اطاعتِ اولی الامر کرتے ہوئے باطل قوتوں سے ٹکراگئے ۔ انہوں نے اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر نہ کی ، وہ اطاعتِ امام عالی مقام میں رضائے الہی کے متلاشی تھے ۔ انہوں نے سن وسال کی حدود وقیود سے ہٹ کر قربانی دی انہیں موت کا یقین تھا وہ جینے پر مرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اصحاب الحسین! حفاظ قرآن ، قاریان کتاب، عارفان امام وقت ، وفاداران اہل بیت اور حامیان حق تھے ۔ ان کی فضیلت کیلئے اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ ان کا خون سرکار سید الشہدا کے خون کے ساتھ مٹی میں مل گیا اور وہ مٹی خاک شفا بن گئی ، امام زین العابدین سے لیکر امام مہدی تک سارے آئمہ معصومین ذکرمظلوم کربلا کے ساتھ ساتھ ان پر سلام کرتے رہے ہیں۔ شب جمعہ کو ارواح انبیا وآئمہ کربلا میں زیارت حسین کے ساتھ ان مخلصین دین پر سلام کرتی ہیں ۔شب جمعہ ام الممنین خدیجہ الکبری ، اور سید نسا العالمین سید فاطم الزہرا شہدائے کربلا کی زیارت کرتی ہیں۔ فرشتے قطار اندر قطار ان کی قبروں کی زیارت کوجاتے ہیں ، اصحاب مظلوم کربلا میں کچھ تو اصحاب رسول تھے جن کا بچپن یا جوانی خاتم الانبیا کی سرپرستی میں گزری تھی سایہ رسالت وتربیت نبوت کے اثر سے انہوں نے تن من دھن قربان کردیا تھا انہوں نے امام عالی مقام کی نصرت کر کے عشق مصطفی کا بین ثبوت فراہم کیا ، انہوں نے مکروفریب پر شرافت ودیانت کو ترجیح دی ، دنیا پر آخرت کو ترجیح دی حرص وطمع پر خاتمہ علی الخیر کو ترجیح دی ، انہوں نے دنیا کی رنگینیوں اور زوال پذیر نعمتوں پر آخرت کے عظیم درجات اور اخروی انعامات کو مقدم سمجھا ان کے سامنے ہر آپشن تھا مگر انہوںنے نمائندئہ حق کا ساتھ دیا وہ اہل بیت عصمت وطہارت کے افراد سے پہلے شہید ہونے کو ترجیح دیتے رہے ، مدینہ سے لے کر کربلا تک راستے بھر میں یہ انصار الاسلام محافظ اسلام کے کاروان حریت میں شامل ہوتے رہے۔حضرت حبیب ابن مظاہر اسدی کوفہ کے اسدی قبیلہ کے سردار تھے انہیں امام حسین نے خط لکھ کر بلایا تھا جب قاصد حسین! حبیب کے گھر پہنچا تو حبیب نے اس سے کہا اے قاصد مجھے پہلے وہ ہاتھ چومنے دے جو چند روز قبل فرزند زہرا کے ہاتھوں میں تھے اور وہ آنکھیں چومنے دے جنہوں نے میرے امام وقت کو دیکھا ہے ، وہ فورا راہی کربلا ہوئے ۔ حضرت مسلم بن عوسجہ اسدی بھی انہی کے قوم وقبیلہ کے تھے جنہوں نے شب عاشور خضاب لگا یا تو حبیب نے پوچھا آپ آج کی شب خضاب لگا رہے ہیں تو فرمانے لگے کہ ہم میں اور جنت میں صرف ایک رات کا فاصلہ رہ گیا ہے ۔انہی نے حبیب رضی اللہ عنہ کو وقت آخر وصیت کی تھی کہ اس مظلوم غریب زہرا کا خیال رکھنا ، حبیب نے بھی وفا کی انتہا کی تھی یہ وہ اصحاب رسول تھے جو سفید ریش کمر خمیدہ اور قاریان کتاب الہی تھے ، انہوں نے اپنی کمروں کو لڑتے وقت پٹکوں سے باندھ کر سیدھا کیا اہل بیت کے حسد میں مبتلا یزیدی فوج اشقیا کو ایسے اصحاب رسول ت کو بے دردی سے قتل کرتے ہوئے بھی حیا نہ آئی جن کی بھنویں لٹک چکی تھیں۔ زہیر ابن قین بھی بوڑھے صحابی تھے۔ انہوں نے رجز میں فوج اشقیا کے دل خنجروں سے نکال باہر کئے(جاری ہے)
وہ لڑتے ہوئے فرماتے جاتے تھے میں زہیر ہوں ابن قین ہوں میں صاحب مذہب حسین ہوں۔ ایسے بزرگ اصحاب کا مذہب حسین پر ہونا بتاتا ہے کہ مذہب حسین عین مذہب رسول تھا جب بجلی نے رجز پڑھا کہ میں جملی ہوں بجلی ہوں میں صاحب دین علی ہوں تو اشقیا کے کلیجے دہل گئے ۔
کربلا میں اصحاب علی واصحاب حسن بھی منصب شہادت پر فائز ہوئے تابعین اصحاب رسول بھی صاحبِ ذبح عظیم پر قربان ہوگئے ۔ شب عاشور میں جب امام عالی مقام نے قلادئہ بیعت اپنے اعوان کی گردنوں سے ہٹا دیا تو بھی کوئی آپ کو میدان میں چھوڑ کر نہ گیا اصحاب سید الشہدا یہ کہتے تھے کہ فرزند رسول ہم فردائے قیامت آپ کے جد کے سامنے شرمسار نہیں ہونا چاہتے نیز فرماتے تھے کہ اگر ہمیں ہزار بار قتل کر کے جدید زندگی دی جائے تو بھی آپ کی ذات پر فدا ہوتے رہیں گے ۔ایک سیاہ فام غلام جون کو جب سرکار سید الشہدا نے بروز عاشورہ آزاد کرنا چاہا تو غلام نے عرض کیا اے فرزند رسول آپ اپنے سرخ ہاشمی خون کے ساتھ میرے سیاہ افریقی خون کو نہیں ملنے دینا چاہتے تو آپ نے فرمایا بار الہا جون کے چہرے کو سفید کردے اور اسے بہترین خوشبو عطا کر بروز قیامت جون کی خوبصورتی اور خوشبو پر اہل محشر غبطہ (رشک) کریں گے ۔
سعید بن عبداللہ ایک ناصر فرزند رسول شب عاشور کے پچھلے حصے میں لشکر اسلام سے ملحق ہوئے اور بروز عاشورہ جوانمردی دکھا کر راہی بہشت ہوئے۔ حرابن یزید ریاحی ایک ہزار دستہ لیکر امام حسین کو قید کر کے کوفہ لانے پر مامور تھے مگر لجام فرس میں ہاتھ ڈالتے ہی ہل گئے الغرض عاشور کی شب انہوں نے توبہ کرنے کا فیصلہ کیا ان کے کانوں میں کئی دن سے ایک بزرگوار کی آواز آتی تھی کہ حر تم جنت سے دور ہوتے جارہے ہو ، چند بار جناب حر نے اس سفید ریش بزرگوار کی زیارت بھی کی جوبعد میں انہیں پتہ چلا کہ خضر پیغمبر تھے حر اپنے بھائی اور بیٹے کے ہمراہ امام حسین کے لشکر میں شامل ہوئے اور جوہر دکھا کر بروز عاشورہ راہی جنت الفردوس ہوئے امام حسین نے اپنی ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا رومال حر کے فرق(سر پر)باندھا تھا جو آج تک قبر میں حر کے ساتھ موجود ہے ۔ شاہ اسماعیل صفوی شاہِ ایران نے شاہ عراق کی اجازت سے ایک مغالطے میں حر کا تعویذ قبر کھولا تھا اور اس رومال فاطمہ کو سرحر پر پایا تھا یہی کربلا کی حقانیت کی بین دلیل ہے جن کے بدن آج تک صحیح وسالم ہیں حر دعائے زاہراکا نتیجہ تھے ۔
ان کانام بھی امام حسین نے رکھا تھا امام عالی مقام کے انصار میں وہب کلبی کا نام بھی سرفہرست ہے جو عیسائی تھے اور امام عالی مرتبت کے استغاثہ آخرپر لبیک کہتے ہوئے مشرف بہ اسلام ہوئے تھے اور جان فشانی سے فرزند رسول پر قربان ہوگئے وہب کلبی کی مادر گرامی اور زوجہ نے بھی جہاد میں حصہ لیا اور شہید ہوئیں جب وہب کلبی کا سر ان کی ماں کی طرف پھینکا گیا تو مادر وہب جو تازہ مشرف بہ اسلام ہوئی تھیں اس نے سرو اپس پھینکا اور کہا یہ حسین پر صدقہ ہے ہم صدقہ واپس نہیں لیتے وہب کی ماں نے مریم کو اور وہب نے جناب عیسی کو خواب میں دیکھا تھا جس میں انہیں نصرت حسین کی تلقین کی گئی تھی ، پچاس انصار الحسین پہلے حملے کے وقت دفاع خیام حسین کرتے ہوئے شہید ہوگئے ۔
بریر ابن خضیرشیر امت بن کر دفاع اہل بیت میں دشمنوں پر جھپٹتے تھے بہت سارے اشقیا کو انہوں نے بڑھ بڑھ کر قتل کیا ، نافع بن ہلال جملی (بجلی) دلیرانہ رجز پڑھتے ہوئے کشتوں کے پشتے لگاتے ہوئے راہی بہشت ہوگئے یہ محافظ حسین شمار ہوتے تھے عبداللہ اور عبدالرحمن فرزندان عزرہ غفاریاں نے ظہر عاشورا کے بعد سرکار سید الشہدا سے دفاع وجہاد کا اذن طلب کیا ، حنظلہ ابن سعد نے امام حسین اور ان کے خون کے پیاسوں سے دفاع وجہاد کا اذن طلب کیا ۔
حنظلہ ابن سعد نے امام حسین اور ان کے خون کے پیاسوں کے درمیان کھڑے ہو کر کہا اے فوج اشقیا تم قتل حسین سے باز رہو ورنہ تمہارا حشر قوم نوح عادو ثمود سے بدتر ہوگا تم جہنم خریدکررہے ہو اے لوگو! فاطمہ کے لال کوقتل نہ کرو ورنہ تم پر درد ناک عذاب نازل ہوگا جس پر امام عالی مقام نے انہیں داد تحسین ود عادی اور فرمایا کہ یہ یزیدی جہنم خرید کر چکے ہیں اور مستوجب سزا ہو چکے ہیں جس پر حنظلہ یزیدی فوجوں میں گھس کر حملہ آور ہوئے اور منصب شہادت پر فائز ہوئے ۔
جناب عابس ابن شبیب شاکری اور ان کے غلام شوذب کے درمیان بروز عاشورا بڑا عجیب مکالمہ کتب مقاتل میں درج ہے جب عابس نے اپنے غلام سے جہاد کیلئے رائے پوچھی تو شوذب نے کہا اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی کہ فرزند رسول پر قربان ہوجائیں عابس پر عمر بن سعد ابن ابی وقاص نے پتھروں کی بارش کردی مگر جانثار حسین پھر بھی جوانمردی سے لڑتے ہوئے موت کی آغوش میں پہنچا سوید ابن عمرو بن ابی المطاع خثعمی آخری شہیدوںمیں سے ہیں۔
بشیر ابن عمروحضرمی بھی ان اصحاب الحسین میں ہیں جووقت آخر تک نبی زادے کا دفاع کرتے رہے جان نثار سرکار سید الشہدا جناب ابو ثمامہ صیدادی تھے انہوں نے بروز عاشورا اما م حسین سے خواہش کی کہ فرزند رسول دل چاہتا ہے زندگی کی آخری نماز آپ کی اقتدا میں پڑھ لوں انہوں نے ظہر عاشورہ کی نماز امام عالی مقام کی اقتدا میں ادا کی اور پھر عازم جہاد ہو کر منصب شہادت پر فائز ہوئے اس مختصر حسینی فوج کی نماز کی ادائیگی تک زہیر ابن قیس اور سعید سپر بنے رہے حبیب ابن مظاہر اسدی کی مقاومت کے باوجود یزیدی فوج نماز حسینی میں خلل ڈالنے کی مذموم سازش کرتے رہے تیر اندازی کرتے رہے۔
زہیر وسعید ابن عبداللہ امام حسین پر ہر آنے والے تیر کو اپنے بدن پر کھاتے رہے حتی کہ نماز کے اختتام پر سعید جان بحق ہوگئے ۔تیروں کی بوچھاڑ کے باوجود زہیرابن قین نے ایک سو بیس ملاعین کو واصل جہنم کیا بریر ابن خضیر ہمدانی صحابی رسول تھے ۔ زہدوعبادت میں معروف تھے ۔ بڑے بہادر تھے۔حر کے بعد رجز پڑھتے میدان کار زار میں نکلے انہوں نے یزید ابن معقل نامی یزیدی کے ٹکڑے کردئیے پھر ساری فوج میدان میں نکل آئی بریر کے حملے نے یزیدی فوج کو اپنے مقتولین کے کشتے اٹھانے سے معذور کردیا تھا ایک سعادت مند جان نثار فرزند رسول ابو عمر ونہشلی ہیں بعض مقاتل میں ان کا نام حبیب ابن عبداللہ نہشلی درج ہے بعض نے ان کا نام زیاد بن عریب لکھا ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here