قارئین کرام! گزشتہ کئی کالموں میں ہم اپنے احساسات، خدشات کا مسلسل اظہار کرتے ہوئے واضح کرتے رہے ہیں کہ اگر سیاسی و اخلاقی منافرت و گراوٹ سے اجتناب نہ کیا تو ملک اس موڑ پر پہنچ سکتا ہے جہاں سوائے نفرت اور تباہی کے کچھ بھی نہ بچے گا اور اس کا نتیجہ خانہ جنگی، معاشی و معاشرتی بگاڑ کی صورت آئیگا۔ نفرت اور دشمنی کی آگ کے پھیلائو کے حوالے سے گزشتہ کالم نفرت کا تدارک کیسے ہوگا میں ہم نے تمام سیاسی قوتوں، ریاستی و عدالتی، آئینی و میڈیا سے اپیل کی تھی کہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ملکی سلامتی و یکجہتی پر پڑنے والے اثرات و مضمرات سے نجات پانے کیلئے اپنے اطوار و کردار پر نظر ثانی کریں۔ ہم نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ ہمارے عسکری ادارے اور ان کے ذمہ داران و عمال ملک کے مضبوط داخلی و خارجی امورکے تسلسل، دفاع اور سالمیت کی کلید ہے اور ان عوامل کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی، خوشحالی و امن عامہ کا حامل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے عسکری، ریاستی، انتظامی و آئینی اداروں کو اگر سیاسی عناد کا نشانہ بنایا جائے تو سوائے انتشار، افتراق و ملکی سلامتی کو خطرے کے کچھ باقی نہیں رہ جاتا اور تاریخ اس حقیقت کی مظہر ہے کہ ان حالات میں عالمی مگرمچھ چھوٹی مچھلیوں کو کھا جانے پر تیار بیٹھے ہوئے ہیں۔ عالمی تاریخ ایسے حقائق سے بھری پڑی ہے اس کی تفصیل میں جانا محض طوالت ہی ہوگا، تاہم گزشتہ 7 دہائیوں پر نظر ڈالیں تو ویت نام سے لے کر مصر، لیبیا، یمن، عراق، شام سمیت ممالک اور قوموں کی تباہی عالمی طاقتوں خصوصاً انکل سام کی توسیع پسندی ہی کار فرماہی نظر آتی ہے۔ افغانستان، فلسطین اور کشمیر کے حالات بھی انہی قوتوں کے اہداف کا نشانہ بنے۔ ان تمام واقعات کی بنیاد جہاں عالمی برتری و توسیع پسندی کی غرض تھی وہیں بوجوہ ان ممالک کی ترقی، قومی حمیت و اتحاد کو پاش پاش کرنا تھا اور جب ان کے اداروں و عوام میں خلیج پیدا ہوئی تو عالمی آقائوں نے انہیں تباہی کے دہانے پر پہنچا کر انہیں بے بس و محکوم کر دیا۔
اس تمہید کی روشنی میں عالم اسلام کے واحد نیوکلیائی و مضبوط ترین عسکری فوج کے حامل اور ترقی پذیر ملک کو اپنے تابع رکھنے کا منصوبہ تو دنیا کی خود واحد قوت کہنے والے امریکہ کی پاکستان کے قیام سے ہی جاری ہے اس کے مظاہر وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں لیکن افغانستان سے واپسی کے بعد خصوصاً امریکہ کے مقابل دوسرے عالمی بلاک کے قیام معاشی سرگرمیوں اور ترقیاتی اقدامات کے منصوبوں کے باعث پاکستان پر دبائو اور عمران خان کے آزادانہ مؤقف و پالیسی کے تحت امریکی دبائو بڑھانے کی جو سازش کی گئی اس کی کڑیاں اب واضح طور سے سامنے آچکی ہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ عالمی طاقتیں پاکستانی نیوکلیئر حیثیت ختم کرنے ختم کرنے کے درپے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی صورت عمران کی حکومت ختم کئے جانے کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ اب جس حد کو پہنچ چکی ہے وہ ایک انتشار، باغیانہ روئیوں، ذاتی گروہی نفرتوں اور اداروں خصوصاً عسکری و عدالتی اشرافیہ کیخلاف توہین و تضحیک، گالم گلوچ اور دھمکیوں تک پہنچ چکا ہے۔
بلا تخصیص حکومتی اور سیاسی مخالف تحریک انصاف نہ صرف ایک دوسرے کیخلاف صف آراء ہیں بلکہ فوج کے سپہ سالار اور کمانڈرز کو بھی اپنی جنگ میں ملوث کرنے سے نہیں ہچکچا رہے ہیں۔ عمران نے اپنے خلاف ہونیوالی سازش کیخلاف عوامی رابطہ مہم میں ”وہ انٹیلی جنس افسر میری آنکھیں اور کان تھا” کہا تو مریم نواز نے کہا ”وہ تمہارے ہاتھ تھا دوسروں کی گردن دبانے کیلئے” عمران نے جلسے میں میر جعفر کو سراج الدولہ کا سپہ سالار کہہ کر نوجوانوں کو آگاہی کی آڑ لی تو شہباز شریف نے پارلیمان میں فوج دشمنی کیخلاف قرارداد مذمت پیش کر دی۔ فوج کے ترجمان کی جانب سے فوج کو سیاسی محاذ آرائی میں ملوث نہ کئے جانے کے بیان کے بعد عمران کا مؤقف کہ وہ میر جعفر و میر صادق شریف برادران کو کہتے ہیں گو کہ سیاسی منافرت کو مزید بڑھا رہا ہے لیکن نفرت اور خصوصاً عسکری قیادت پر سوشل میڈیا پر فوج کیخلاف زہریلے ٹوئیٹ اور فیک ویڈیوز کے ذریعے فوج کے مڈل لیول حتیٰ کہ کمانڈرز کی طرف سے سربراہ کیخلاف بیان دکھا کر ملک کی سالمیت میں لگی آگ کو مزید بھڑکایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب عمران خان کے عوامی رابطوں اور لانگ مارچ کے حوالے سے شیخ رشید رکاوٹ ڈالنے پر آگ و خون کے نعرے لگانے میں مصڑوف ہیں تو جواباً رانا ثناء اللہ امن و امان کے ناطے سے دھمکیوں پر آمادہ ہیں۔ یہ سیاسی مار دھاڑ ملک کو اس نہج پر لے آئی ہے کہ سیاسی عدم استحکام کیساتھ ملک معاشی، معاشرتی، اخلاقی و انتظامی اور امن و امان کی بدترین صورتحال پیش کر رہا ہے اور خدشہ ہے کہ ان تمام عوامل کی وجہ سے(خدانخواستہ) کسی بد ترین صورتحال اور شکست و ریخت سے دوچار نہ ہو جائے۔ پاکستان دشمن قوتیں دہشتگردی، خونریزی اور نقصان پہنچانے کیلئے جس طرح صف آراء ہیں اس کی تازہ مثالیں کراچی یونیورسٹی، چاغی، شمالی وزیرستان میں خود کش حملے عسکری جوانوں و عہدیداران پر حملے و دہشتگردی ہیں۔
قطع نظر اس حقیقت کہ ہم عمران خان کو دیگر سیاسی قائدین کے مقابلے میں بہتر سمجھتے ہیں اور ہمیں یہ بھی علم ہے کہ عمران کا بیانیہ نہ صرف پاکستان میں عوام بلکہ اوورسیز پاکستانیوں کی بہت بڑی اکثریت کیلئے بھی پاکستان اور قوم کی آزادی و وقار کا مظہر ہے اور یہ کہ عمران خان کی آواز پر لبیک کہنے والے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں لیکن کیا اس کشیدہ ترین سیاسی صورتحال، پارلیمانی ابتری، ریاستی اداروں سے تنائو اور معاشی و انتظامی ابتری نیز عوام میں بدترین تصادم کے باعث پاکستان کی سلامتی برقرار رہ سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر جس شیطانیت اور غلاظت کا مظاہرہ ہو رہاہے وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستانیوں کے روپ میں دشمن قوتوں کے ہرکارے ہیں جو اپنے آقائوں کے ایجنڈے پر (خاکم بدھن) پاکستان کی سلامتی کے درپے ہیں اور نفرت و اختلاف کی وہ آگ لگانا چاہتے ہیں جو ملک و قوم کا شیرازہ بکھیر دے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ سیاسی گھمسان کے ساتھ ملکی معیشت کے اشارے بھی کم ترین سطح پر ہیں۔ ڈالر نے پھر اونچی اُڑان بھری ہے، اسٹاک مارکیٹیں کریش ہو رہی ہیں، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور حکمرانوں کے تجربے اور دعوئوں کے باوجود کسی بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ حکمران صرف سیاسی مخالفت پر ہی عمل پیرا نظر آتے ہیں۔
ایک محب وطن اور اپنی مٹی کی محبت میں سرشار ہونے والے کی حیثیت سے ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی ہماری یہی عرض ہے کہ اس عالمی سازش کو نا کام بنانے اور پاکستان کی سلامتی و تحفظ اور انتشارسے نکلنے کے لیے نہ صرف ہماری سیاسی اشرافیہ (حکومتی و مخالف)سے حالات کا احساس کرے اور بگڑتی ہوئی خطرناک صورتحال سے نکلنے کیلئے مقابلوں، جلسوں، جلوسوں اور منافرانہ و غلیظ رویوں بیانیوں انتقامی و احتجاجی اقدامات کے دائرے سے نہ صرف خود باہر نکلے بلکہ اپنے لوگوں، ووٹروں اور سپوٹروں کو بھی اس کیفیت سے باہر لائے لیکن شاید موجودہ سچوئیشن ایسی نہیں کہ ہماری سیاسی قیادت اپنی اسٹریٹجی سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہو۔ عوام بھی اس حد تک آچکے ہیں کہ انہیں اس راہ سے واپس لانا ان سیاستدانوں کے اپنے لئے ممکن نہ ہوگا۔ اس تشویشناک ترین سیاسی، معاشی و عوامی صورتحال سے نجات کیلئے ہماری نظریں ان مقتدرین کی طرف ہی جاتی ہیں جو بدترین حالات میں ملک و عوام کے تحفظ و سلامتی کے ضامن رہے ہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ اگر حالات یہی رہے تو ملک انارکی کی اس سطح پر پہنچ سکتا ہے جہاں خونریزی اور تباہی کے سواء کچھ نہ بچے گا۔ بقول شاعر!!!
اگر یونہی رہے حالات اپنے
تو اپنی داستاں تک بھی نہ ہوگی
بہتر حل جلد اور شفاف انتخابات ہے ورنہ آگ بھڑکتی رہے گی۔