سازشی خطوں کی بھرمار !!!

0
66
رمضان رانا
رمضان رانا

پاکستان میں سائفر نامی خط کے بعد سازشی اور پر اکسی خطوں کی بھرمار جاری ہے کہ پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے اپنا ایک سازشی خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی کو لکھا کہ ہمیں گزشتہ دو سال سے دھمکیوں کا سامنا ہے جس کا ذکر ہم نے سابقہ چیف جسٹس بندیال سے بھی کیا تھا جنہوں نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ ہمیں دفتروں، عدالتوں اور گھروں میں دھمکایا اور ڈرایا جارہا ہے جبکہ ہم عمران خان کے دوہر بریت میں بالکل محفوظ تھے جس پر چیف جسٹس قاضی نے پہلے فل کورٹ میں فیصلہ کیا کہ یہ حکومتی معاملہ ہے لہٰذا حکومت کوئی کمیشن بنا کر تحقیقات کرے جس پر حکومت نے آئین اور قانون کے مطابق سابقہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی پر مشتمل ایک کمیشن کا اعلان کیا مگر چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی یہ بوجھ برداشت نہ کر پائے اور بھاگ نکلے جس کے بعد چیف جسٹس قاضی نے ازخود نوٹس لے کر اس چھکا جج خط پر الیکشن لے لیا ہے جو اس سازشی خط کا کچا چٹھا نکالے گا کہ یہ جج صاحبان اس وقت کیوں محفوظ تھے جب اسی ہائی کورٹ کے سابقہ جج شوکت صدیقی کو جنرل فیض حمید نے ذہنی جسمانی اور مالی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ جن سے موجودہ چھکا ججوں نے ملنا جلنا بند کردیا تھا۔جو اپنے اوپر ظلم وستم پر ڈٹے رہے ہر طرح کی قربانی دی جن کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے برطرف کردیا تھا جو آخر کار موجودہ عدالت عظمیٰ سے انصاف لینے میں کامیاب ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ چھ ججوں نے اپنے اختیارات کے تحت ان دھمکانے اور ڈرانے والے اہلکاروں کو توہین عدالت کے مقدمے میں جیلوں میں کیوں نہ ڈالا۔ اگر ایسا کیا ہوتا تو پھر یہ خط صحیح ثابت ہوتا کہ ہمیں خوف زدہ کیا جارہا ہے۔ اس لئے یہ خط ایک سازشی پلندہ ہے جو صرف اور صرف چیف جسٹس قاضی کے خلاف گھیرائو کیا تاکہ وہ صحیح سمت کی بجائے الٹی سمت اپنا کر اپنا وقت کا زیاں کرے۔ تاہم چھکا خط کے بعد عدلیہ کے ججوں کو خطوں کی لائن لگ چکی ہے جس میں سپریم کورٹ، اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹ کے ججوں کو اسی طرح خط بھیجے جارہے ہیں جس طرح نان الیون کے بعد خط بھیجے گئے جس میں بعض زہریلے پائوڈر بھی بھیجے جارہے ہیں جس کا ذکر میڈیا میں ہو رہا ہے۔ جو عدلیہ کو ہراساں اور خوف زدہ کرنے کے مترادف ہے تاکہ پاکستان کا آئینی ادارہ مفلوج ہو کر رہ جائے۔ بہرکیف اس خط بازی سے صرف اور صرف عمران خان لطف اندوز ہو رہے ہیں جو موجودہ عدلیہ کے لئے تھوڑا گروپ ثابت ہورہے ہیں تاکہ عدلیہ بے بس ہو کر ان کے خلاف مزید فارن فنڈنگ کی وصولی190ملین پونڈز کا فراڈ یا دوسرے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ ہو پائے جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہو رہے ہیں۔ کہ ان کے دو مقدمات میں سزائیں معطل کر دی گئی جس کی باقی کوئی نام ونشان نظر آرہا ہے جو شاید کسی ڈیل کی بدولت بہت جلد رہا ہوجائیں گے۔ جو بہتر ہوگا کہ جیل میں اس شہزادوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے جن پر روزانہ لاکھوں روپے خرچ ہو رہے ہیں جن کو جیل میں ہر وہ سہولت میسر ہے جو گھر میں دستیاب نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ موصوف کو سزا کے باوجود غیر ملکی ایجنٹس اور اہلکار اور سفیر اور مشیر ملاقاتیں کر رہے ہیں جس کی دنیا بھر مثال نہیں ملتی ہے۔ تاہم پاکستان میں بھٹو، بینظیر بھٹو، زرداری، نوازشریف کو یہ ملاقاتیں ملی ہوئی تھیں جس سے لگتا ہے کہ ایک ٹوپی ڈرامہ ہے جس کو کھیلا جارہا ہے جس سے ایک شخص ناکام ترین شخص زیرو سے ہیرو بن چکا ہے جن سے دس سالہ پختونخواہ پانچ سال پنجاب اور ساڑھے تین سالہ مرکزی تباہی اور بربادی کا نہیں پوچھا جارہا ہے بہرحال پاکستان ایک بہت بڑے انتشار اور خلفشار کا شکار ہوچکا ہے جس کو انتقامی رویوں سے ابھارا جارہا ہے جو عنقریب کسی بھی خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا لہٰذا پاکستان کے ساتھ یہ کھیل بند کرنا پڑے گا۔ اگر ریاست ہے تو سیاست ہے ورنہ بہت جلد سب ٹھاٹھ پڑارہ جائوے گا جب لاد چلے گا بنجارا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here