یومِ عرفہ۔ سفر حج
آخر میری زندگی کا وہ اہم ترین دن بھی آپہنچا جب اپنے خیمے سے باہر نکلا، آنکھ کھولی تو کھلی کی کھلی رہ گئی۔ میرے سامنے اس وسیع عریض میدانِ عرفات کی وہ لاتعداد ناہمواریاں تھیں جو نبی اکرم ۖ کے خطبہ حج الوداع کے پندرہ سو بعد بھی تقریبا اسی طرح ناہموار ہی ہیں۔ سیدالانبیا نے کن کن مشکلات سے گزر کر اللہ کا پیغام امت تک پہنچایا، آج میرے جذباتی ہونے کا آغاز انہی صعوبتوں کا تصور کرکے، نبی بابرکات کی ذاتِ اقدس کیلئے شکریہ کے احساس سے ہوا۔ اتفاق سے ہمارا خیمہ جبلِ رحمت کے بالکل قریب تھا۔ وہ جگہ جہاں نبی اکرم نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کے اپنی زندگی کا پہلا اور آخری خطبہ حج دیا تھا۔ شدید دھوپ اور گرمی کی وجہ سے میری عمر اور صحت کے لوگوں کیلئے ہدایات یہ تھیں کہ وہ زیادہ دیر خیمے سے باہر نہ رہیں۔ محافظین نے مجھ پہ بڑی کڑی نظر رکھی ہو ئی تھی کہ میں ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کہیں سلپ نہ ہو جائوں۔میرے دونوں بیٹے اور داماد تو اپنی جوانیوں کا فائدہ اٹھا کر اور گرمی سے بچا کرنے والے اسلحے سے لیس ہو کر، میدان کا تفصیلی دورہ کر آئے تاکہ اپنی دعائیں اپنے رب کے حضور پہنچا سکیں۔ اس دوران شاہ نورالحق قادری صاحب نے خیمے کے اندر انتہائی ایمان افروز خطاب کیا۔ بیشک وہ ایک صاحب علم انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سچے عاشقِ رسول ۖ بھی ہیں۔مسجدِ نمرہ سے ہمارا خیمہ کافی فاصلے پہ تھا۔ اس لئے، وہاں سے جاری ہونے والا خطبہ حج ہم نے انٹرنیٹ کے ذریعے سنا۔ اس دوران وقفہ وقفہ سے میں اپنے محافظین کی نظریں بچا کر میدانِ عرفات میں نکل جاتا تھا۔ مسجد نمرہ میں نماز پڑھنے والے عازمین بھی جبلِ رحمت کی طرف آجاتے ہیں۔ لاکھوں لوگ سفید احرام باندھے ہوئے، اپنے رب کے حضور پہنچے ہوئے تھے۔ نفسا نفسی کا عالم دیکھا۔ ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی تھی۔ آنسو تھے کہ تھمتے نہیں تھے۔ اپنے اپنے نفس پر جو ہم ظلم کرتے رہتے ہیں، آج وہ سارا کچا چٹھا، آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی صورت میں چل رہا تھا۔ ہچکیاں تھیں کی کہ ختم نہیں ہو نے دے رہی تھیں۔ مجھے پہلے تو بالکل اندازہ نہ ہوا کہ میں اپنے رب سے مانگ کیا رہا ہوں؟ مادری زبان سرائکی سے شروع ہوتا تھا، سندھی، پنجابی، اردو اور انگریزی تک پہنچتا ہی تھا کہ حسنہ بیٹی کی تیار شدہ عربی دعائوں کی بکلیٹ یاد آجاتی تھی۔ عربی زبان کی دعائیں پڑھنے کے بعد قرآن مجید کے جو حصے یاد تھے وہ زبان پر رواں ہو جاتے۔ جب یہ سلسلہ متعدد بار رپیٹ ہوا تو مجھ خیال آیا کہ میرے سیکڑوں عزیزوں، رشتہ داروں، دوستوں اور ساتھیوں نے جو دعائوں کی فرمائشیں کی ہیں، ان کا کیا بنے گا؟ پھر وہ چہرا سامنے آتا تھا، جس سے دیکھ کر میں رب کے حضور اسکے اپنے بندوں کی التجائیں، پہنچاتا رہا۔میں چونکہ ابتدا سے ہی سید مودودی کی تحریروں سے متاثر ہو کر، اس بات کا قائل رہا ہوں کہ اس دنیا کے عام آدمی کے مسائل کا حل صرف اور صرف قرآن و سنت کے الہامی اصولوں کے مطابق ریاست کے قیام میں ہے۔ اس لئے یومِ عرفہ کے اس اہم دن، میری دعاں میں یہ التجا شامل رہی۔ اسی طرح غزہ کے بیگناہوں کی نصرت کی دعا بھی بہت زیادہ مانگی کہ انکی آزمائشیں ختم ہوں۔ امریکہ میں سوشل جسٹس کیلئے اور پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام کیلئے خوب دعائیں کی۔پڑھا اور سنا تو یہی تھا کہ وقوفِ عرفہ ہی حج کارکنِ اعظم ہے بلکہ یہی اصل حج ہے۔ آج عملی طور پر بھی یہی نظر آیا۔ یہی ایک ایسا دن اور ایسا مقام تھا کہ جس دن جملہ عازمین حج ایک ساتھ اور ایک ہی وقت میں اپنے رب کے حضور پیش ہوئے۔اپنی عرضیاں اور التجائیں رکھیں۔ ہر زبان میں کی جانے والی دعا کا بنیادی مفہوم یہی لگ رہا تھا کہ اے پروردگار، میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں خطا کار ہوں لیکن میں کسی حساب کتاب کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میں سب کچھ آپ کے اقتدار و اختیار پہ چھوڑتا ہوں۔ آپ میرے ساتھ جو فیصلہ و سلوک کریں گے، میں حاضر ہوں۔ بس چاہتا یہی ہوں کہ مجھے معاف کردیا جائے۔ میں آئندہ کیلئے توبہ کرتا ہوں۔ کسی شاعر نے شاید کسی پہ طنز کیا تھا کہ
وہ مانگتے ہیں آج گناہوں کی معافی
یا رب بتا دے آج قیامت تو نہیں ہے
لیکن سچ پوچچھیں تو یومِ عرفہ بالکل قیامت کا سا سماں ہی پیدا کردیتا ہے۔
شام ڈھلی تو گروپ منتظمین نے ہر بس کے مسافروں کو ان کی بس کی طرف لے جانے کا اعلان کیا۔ خیموں سے صحیح بس تک پہنچنا، ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ بس کی طرف روانہ ہوئے تو میرے دائیں بائیں دونوں بیٹے سامنے اہلیہ، بہو اور بیٹی، درمیان میں داماد اور پیچھے میرے عزیز دوست عمران صدیقی بھائی موجود تھے۔ انتہائی زیادہ رش کی وجہ سے یہ فارمیشن زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی لیکن میدانِ عرفات میں اپنے رب کے حضور میں مجھے سخت جذباتی ضرور کر گئی۔ دل ہی دل میں، اپنے پیارے رب سے التجا کی کہ تقریبا اڑتیس سال ایک غیر مسلم ملک امریکہ میں اپنی اہلیہ سمیت رہائش رکھنے کے بعد آج ہم اپنی کل جمع پونجی ان نوجوانوں کے صورت میں، میدان عرفات میں، یومِ عرفہ کے دن، تیرے حضور پیش کر رہے ہیں۔ انہیں قبول فرما کر، اپنے مقاصد عالیہ کیلئے استعمال کر۔ یا اللہ یہ کبھی بھی اپنے دین سے دور نہ جائیں۔ انہیں ہمت و جرت سے نواز تاکہ یہ ہر قسم کی ناپاک قوتوں سے مقابلہ کرسکیں۔ تو قادرِ مطلق ہے، تیری چٹکی میں یہ کل کائنات ہے۔ یا اللہ انکے دین و ایمان کی حفاظت فرما۔ آمین۔
بس خراماں خراماں وادی مزدلفہ کی جانب بڑھنے لگی اور ہم زیرِ لب اپنے اقبال کو گنگنانے لگے۔
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
٭٭٭