نیویارک (پاکستان نیوز) افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے پاکستان اور افغانستان میں تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں ، افغان صدر اشرف غنی طالبان کی جانب سے بڑھتے حملوں اور 9صوبائی دارلحکومتوں پر قبضے کے پیچھے پاکستان کی حمایت کو وجہ قرار دے رہے ہیں ، اشرف غنی کے مطابق پاکستان طالبان کو مکمل سپورٹ فراہم کررہا ہے جس کی وجہ سے طالبان تیزی کیساتھ اپنے اہداف حاصل کر رہے ہیں ، افغانستان اور بھارت کی جانب سے آج پاکستان کیخلاف سوشل میڈیا پر مہم کا آغاز کیا گیا جس کے دوران سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر #SanctionPakistan کے نام سے ٹرینڈ چلایا گیا ، اس ٹرینڈ میں بھارت اور افغانستان سے لاکھوں ٹوئیٹ کے ذریعے دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ افغانستان کی بگڑتی صورتحال کے پیچھے پاکستان ملوث ہے ۔سوشل میڈیا ٹرینڈ اور پاکستان مخالف مہم کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے بتایا کہ پاکستان کے خلاف دانستہ طور پر جھوٹی خبروں پر مبنی مہم چلائی جا رہی ہے جس میں سرِفہرست انڈیا ہے اور اب افغان حکام بھی اس میں ملوث ہیں۔بدھ کے روز اسلام آباد میں ہونے والی پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان پر پابندیاں لگانے سے متعلق ٹرینڈ جعلی ہے اور اسے افغانستان کے چند ریاستی اہلکاروں کی جانب سے بھی ٹویٹ کیا گیا، جو افسوس ناک ہے۔انھوں نے کہا کہ افغانستان میں 20 سال کی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور پاکستان پر پابندیوں سے متعلق ٹرینڈز چلائے جا رہے ہیں۔ یہ وہی ای یو ڈس انفو لیب کی کڑیاں ہیں جو ہمیں یہاں نظر آ رہی ہیں۔خیال رہے کہ گذشتہ برس یورپی یونین میں فیک نیوز کے حوالے سے کام کرنے والے تحقیقی ادارے ‘ای یو ڈس انفو لیب’ کی رپورٹ میں گذشتہ 15 سال سے قائم انڈیا نواز نیٹ ورک پر کی جانے والی تحقیق میں یہ معلومات سامنے آئی تھیں کہ کس طرح ‘ڈس انفارمیشن’ اور ‘انفلوئنس’ آپریشن نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین میں اپنے جال بچھائے جس کی مدد سے انڈین بیانیے کو فروغ اور پاکستان کو عالمی طور پر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔دوسری جانب وفاقی وزیرِ برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے خلاف بڑے سوشل میڈیا ٹرینڈز کی معاونت انڈیا کی جانب سے کی گئی ہے اور پاکستان کے اندر جو سب سے بڑا پلیئر ہے جس نے انڈیا کی مدد کی ہے وہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) ہے۔انھوں نے پاکستان پر پابندیوں سے متعلق حالیہ ٹرینڈ کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ گذشتہ کچھ دنوں سے ‘سینکشن پاکستان’ نامی ٹرینڈ میں ’20 ہزار ٹویٹس پی ٹی ایم نے کی ہیں اور کل آٹھ لاکھ ٹویٹس کی گئی ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ جس میں افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح، قومی سلامتی کے مشیر محب اللہ اور وزیرِ دفاع جنرل بسمہ اللہ محمدی نے بھی ٹویٹ کی ہیں۔معید یوسف کا کہنا تھا کہ بوٹس کی مدد سے اس طرح کے ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں اور ہمارے دونوں ہمسایہ ریاستوں کے اہلکار اور ان سے منسلک اکاؤنٹس کی مدد سے یہ ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں۔معید یوسف کا مزید کہنا تھا کہ وہ ابھی امریکہ کے دورے پر تھے اور وہاں سرکاری سطح پر پاکستان پر پابندیوں سے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی۔انھوں نے وہ پانچ موضوعات بھی بتائے جن کے حوالے سے سب سے زیادہ جھوٹی خبریں چلائی جا رہی ہیں۔ ان میں پاکستان فوج مخالف، بلوچ اور پشتون علیحدگی پسندوں کی حمایت میں، سی پیک پر براہ راست نشانہ، پاکستان کو فیٹف کی بلیک لسٹ میں ڈالنے سے متعلق اور افغانستان میں تمام افراتفری کی وجہ پاکستان ہے، شامل ہیں۔انھوں نے کہا کہ اب ہم تجزیے اور اعداد و شمار کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے کہ کیسے پاکستان کے خلاف جھوٹی خبروں پر مبنی مہم چلائی جاتی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ پاکستان افعانستان میں طالبان کی حمایت کر رہا ہے لیکن اگر آپ نقشہ اُٹھا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس میں پاکستان کا کردار ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ جہاں طالبان کے قبضے جاری ہیں وہاں تک رسائی کے لیے پاکستان سے کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں۔دوسری طرف افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان ، روس ، امریکہ اور ایران کے نمائندے دوحہ میں افغان طالبان اور افغان قیادت کے درمیان مذاکرات کے لیے اقدامات کررہے ہیں ، چاروں ممالک کے نمائندوں کا اجلاس دوحہ میں جاری ہے جہاں افغان طالبان اور افغان قیادت کو مذاکرات کے لیے راضی کیا جا رہا ہے ، اس سے قبل چاروں ممالک کے نمائندوں نے مارچ اور اپریل کے دوران ماسکو اور دوحہ میں مذاکرات کا انعقاد کیا تھا ، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق امریکہ کے افغانستان میں خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد گزشتہ تین دنوں سے دوحہ میں موجود ہیں اور اس حوالے سے مذاکرات کے لیے اقدامات کررہے ہیں ۔ دریں اثنا ء پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان پر واضع کیا ہے کہ ہمارا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں ہے ، اشرف غنی کے الزامات کے باوجود ہمارا رویہ مثبت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں بہتری چاہتے ہیں وہاں کہ عوام امن چاہتے ہیں، افغان امن عمل میں ہمارا کردار مثبت رہا ہے، آج بھی دوحہ میں امن مذاکرات میں پاکستانی وفد شامل ہے، پاکستان کا مثبت کردار اور قیام امن کیلئے کوشش، کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج دنیا افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کی مصالحانہ کوششوں کو سراہ رہی ہے، افغانستان کے حالات کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے، افغانستان سے باہرایک طبقہ اسپائیلر کا کردار ادا کر رہا ہے۔وزیرخارجہ نے کہا کہ یہ کہہ دینا کہ پاکستان نے ڈیڑھ انچ کی مسجدبنارکھی ہے درست نہیں، ہم عالمی اتفاق رائے کا حصہ ہیں ہمارے مقاصد یکساں ہیں، کچھ قوتیں امن کے مخالف کام کررہی ہیں،جن پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں، افغانستان کا اگر فوجی حل ہوتا تو وہ نکل چکا ہوتا، افغانستان میں جتنا امن کا عمل بڑھا ہیوہ ہماری کوششوں سے بڑھا ہے، ہم افغانستان کے تمام ہمسائیوں سیرابطے میں ہیں، ہم مل کر ایک مربوط حکمت عملی بنانا چاہتے ہیں ، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں تشدد میں اضافے پر ہمیں تشویش ہے ،ہم افغانستان کیمعاملات میں مداخلت نہیں چاہتے، اچھے ہمسائے کا کردار ادا کرنے کیلئے تیارتھے اور تیار ہیں، بارڈر فینسنگ اس لیے کی کہ ناپسندیدہ عناصر کی نقل و حرکت روکی جا سکے۔انہوں نے کہا کہ ہم بارڈر کی نقل و حرکت ریگولیٹ کرنا چاہتے ہیں، 25 سے30 ہزار لوگ روزانہ بارڈر کراس کرتے ہیں، ہم نے ان سیکہا ہمارے ہاں بھارت جیسی بھیانک صورتحال نہیں۔دوسری طرف بھارت نے طالبان کے خوف اور اپنی شکست کی وجہ سے افغانستان میں اپنا آخری قونصل خانہ بھی بند کر دیا ہے ، بھارتی حکومت نے مزار شریف میں اپنا قونصل خانہ بند کر کے عملے کو بھارت بلوا لیا ہے ، مزار شریف مشرقی افغانستان کا سب سے بڑا شہر ہے ، بھارتی اپوزیشن جماعتیں حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ افغانستان میں موجود 750کے قریب سکھ اور ہندو وں کی بحفاظت وطن واپسی کو یقینی بنائے ۔