پاکستان ، امریکہ میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ جنگ جاری

0
9

واشنگٹن(پاکستان نیوز) پاکستان اور امریکہ میں سیاسی منظر نامہ مماثل دکھائی دے رہا ہے ، پاکستان میں عمران خان اور جبکہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اسٹیبشلمنٹ کے خلاف برسرپیکار ہیں ، سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو مقررہ مدت سے قبل ہی ختم کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد 100 سے زائد مقدمات میں ان کو جیل میں قید کر دیا گیا ہے اور اب بھی وہ جیل میں مقید ہیں جبکہ دوسری طرف سابق امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کو نیویارک کی عدالت کی جانب سے 34الزامات میں قصور وار قرار دے دیا گیا ہے ، جس کیخلاف 11جو ن کو سزا سنائے گی ، اس ممکنہ سزا کیخلاف ٹرمپ کے حامی سڑکوں پر ہیں اورسزا کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں،سابق صدر ٹرمپ کو 34الزامات میں قصور وار قرار دیئے جانے کے بعد ملک بھر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سابق صدر کی حمایت اور ججز کو دھمکیوں کو سے بھر گئے ہیں ، آن لائن فورمز پر جو پہلے بڑے پیمانے پر فائرنگ سے منسلک رہے ہیں، لوگ تشدد کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور نیویارک کے 12 ججوں کو عوامی طور پر شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنہوں نے جمعرات کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مجرم قرار دینے کا فیصلہ کیا، فیصلے کے اعلان کے فوراً بعد انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آن لائن انتہا پسندی پر نظر رکھنے والے ماہرین نے CNN کو بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں پرتشدد بیانات کا حجم اتنا ہی زیادہ ہے جتنا کہ اگست 2022 میں ایف بی آئی کی جانب سے ٹرمپ کی مارـاےـلاگو پراپرٹی کی تلاش کے بعد تھا۔ ٹرمپ کی سزا کے ایک دن کے اندر تقریباً 9,300 آن لائن پوسٹنگ میں شہری بدامنی کا ذکر کیا گیا، ستمبر 2019 میں، جب ہاؤس ڈیموکریٹس نے ٹرمپ کے مواخذے کی پہلی انکوائری کا اعلان کیا اور ٹرمپ نے ٹویٹر پر ایک پادری کے حوالے سے انتباہ دیا کہ اگر ٹرمپ کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تو ملک میں “خانہ جنگی جیسا فریکچر” ہو جائے گا، بدامنی سے متعلق آن لائن پوسٹس کی تعداد تقریباً 20,000 تھی۔ ٹرمپ کی گرفتاری ممکن ہے لیکن اس کا بہت زیادہ امکان نہیں ہے کہ ٹرمپ جیل کی سلاخوں کے پیچھے وقت گزاریں گے۔ان کے خلاف الزامات ‘کلاس ای’ جرائم کے زمرے میں آتے ہیں اور یہ ریاست نیویارک میں سب سے کم درجے کے جرائم شمار ہوتے ہیں۔ ہر الزام میں زیادہ سے زیادہ چار سال کی سزا ہے۔اس کے ساتھ ہی اس کیس کو سننے والے جج جسٹس مرچن کے پاس کم سے کم سزا کا انتخاب کرنے کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں مسٹر ٹرمپ کی عمر، ٹرمپ کا ماضی میں کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہ ہونا، اور ان کے خلاف دیگر الزامات غیر متشدد قسم کے جرائم میں شامل ہوتے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ جج اس کیس کی بے مثال نوعیت پر بھی غور کریں اور پھر شاید وہ سابق صدر ٹرمپ کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے سے بچنے کا انتخاب کریں۔یہاں یہ سوال بھی ہے کہ کیا ان کا جیل جانا قابل عمل صورتحال بھی ہو گی۔ تمام سابق صدور کی طرح مسٹر ٹرمپ بھی سیکرٹ سروس کی جانب سے تاحیات حفاظت کیے جانے کے حقدار ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جیل میں بھی ان کی حفاظت کے لیے کچھ ایجنٹوں کی ضرورت ہو گی۔ان سب کے باوجود ایک قیدی کے طور پر صدر کے ساتھ جیل کا نظام چلانا انتہائی مشکل ہو گا۔ انھیں محفوظ رکھنا بہت بڑا سکیورٹی رسک اور مہنگا سودا ہو گا۔جیل کی مشاورتی کمپنی وائٹ کالر ایڈوائس کے ڈائریکٹر جسٹن پیپرنی نے کہا کہ جیل کا نظام دو چیزوں یعنی جیل کی حفاظت اور اخراجات کو کم رکھنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔انھوں نے کہا کہ مسٹر ٹرمپ کے معاملے میں ‘عجیب و غریب صورتحال درپیش ہو گی، کوئی وارڈن اس کی اجازت نہیں دے گا۔مسٹر ٹرمپ کے دو وفاقی معاملات کے معاملے میں معافی دینے کے اختیارات واضح نہیں ہیں۔ ایک خفیہ دستاویزات کے مبینہ غلط استعمال سے متعلق ہے جبکہ دوسرا 2020 کے انتخابات کو الٹانے کی سازش سے متعلق ہے۔پہلے معاملے میں فلوریڈا میں ٹرمپ کے مقرر کردہ جج نے یہ کہتے ہوئے کہ شواہد کے بارے میں سوالات کو حل کرنے سے پہلے تاریخ طے کرنا ‘بیوقوفی’ ہو گی، مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ہے۔ دوسرا وفاقی کیس بھی تاخیر کا شکار ہے جبکہ مسٹر ٹرمپ کی جانب سے ایک اپیل کی سماعت ہوئی۔مذکورہ دونوں وفاقی مقدمات میں سے کسی کا بھی نومبر کے انتخابات سے پہلے فیصلہ آنے کا امکان نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو بھی تو آئینی ماہرین اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ آیا صدر کی معافی کی طاقت میں وہ خود بھی شامل ہیں یا نہیں۔ ایسے میں مسٹر ٹرمپ خود کو معاف کرنے کی کوشش کرنے والے پہلے شخص ہو سکتے ہیں۔دوسری جانب پاکستان میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیر کو سائفر کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے ان کی سزاؤں کو کالعدم قرار دیا ہے۔یہ 27 مارچ 2022 کو عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں ایک جلسے کے دوران ‘سائفر’ لہرائے جانے سے شروع ہونے والی کہانی میں ایک اور اہم موڑ ہے۔عدالت کی جانب سے سوموار کے دن مختصر فیصلہ سنایا گیا جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اس سال جنوری میں سائفر مقدمے میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس سال قید کی سزا سنائی تھی۔سوموار کے دن اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی ڈویڑن بینچ نے جب ان اپیلوں پر فیصلہ سنایا تو اس موقع پر عمران خان کی دونوں بہنوں کے علاوہ شاہ محمود قریشی کی اہلیہ، ان کی بیٹیاں اور پی ٹی آئی کے متعدد رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔وفاقی حکومت کے ترجمان برائے قانونی امور بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا ہے کہ اس بریت کے فیصلے سے ایک راستہ کھل گیا ہے کہ ‘کل کوئی بھی اپنے ذاتی مقاصد کے لیے خفیہ دستاویزات کو پبلک کرسکتا ہے اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کی جانب سے ‘قومی سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تو بہتر ہوتا’ مگر ان کے مطابق اِس حکم کو چیلنج کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ‘پراسیکیوشن نے کرنا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here