آرمی چیف کی تعیناتی کھٹائی میں؛ صدر علوی کا آئینی و سیاسی کردار؟

0
66

اسلام آباد (پاکستان نیوز) جیسے جیسے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ قریب آ رہا ہے ملک میں سیاسی بحران مزید شدت اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے ، اس سارے عمل میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان حکومت سے باہر رہ کر بھی کلیدی حیثیت اختیار کر گئے ہیں کیونکہ سابق وزیراعظم نے صدرمملکت کو واضح ہدایات دی ہیں کہ اگر آرمی چیف کا نام ان کے حمایت یافتہ امیدواروں کے علاوہ ہوا تو وہ فوری طور پر سمری کو منظور کرنے سے انکار کر دیں ، اگر ایسا ہوا تو معاملہ مزید بحران سے دوچار ہو جائے گا، اب فیصلہ صدر مملکت کی کورٹ میں ہوگا کہ وہ آئینی کردار ادا کرتے ہوئے وزیرا عظم کے تفویض کردہ نام کی منظوری دیتے ہیں یا پھر غیر آئینی کردار ادا کرتے ہوئے عمران خان کی حمایت میں سمری کو مسترد کر دیں گے ، اگر عارف علوی نے بطور صدر آرمی چیف کی سمری پر دستخط نہ کیے تو پھر صورتحال کیا ہوگی، اگر حکومت صدر مملکت کو عہدے سے ہٹاتی ہے تو اسمبلیوں سے ووٹنگ کے ذریعے نئے صدر کے انتخاب میں مزید وقت درکار ہوگا، اسمبلیوں کا کورم پورا کرنا بھی چیلنج ہوگا ، حکومت اس سے نئے گرداب کا شکار ہو جائے گی اور موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہر صورت توسیع دینا پڑے گی اور معاملہ الیکشن کے بعد ہی حل ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہے کہ جی ایچ کیو نے آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری وزارت دفاع کو بھیج دی ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے وزارت دفاع کو جی ایچ کیو سے سمری وزارت دفاع کو بھیجنے کا پیغام جاری کیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق جی ایچ کیو نے چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی کے لیے 6 سینئر ترین جنرلز کے نام وزارت دفاع کو بھیج دیئے گئے ہیں۔ وزارت دفاع نے نئے آرمی چیف کی سمری وزیراعظم ہائوس تک پہنچا دی ہے، رپورٹ کے مطابق سمری میں 6 سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کے نام ہیں، ذرائع نے بتایا کہ سمری میں سب سے پہلا نام لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کا ہے جبکہ دوسرا لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سمری میں لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس، لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر کا نام شامل ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here