راولپنڈی (پاکستان نیوز) پاکستان نیوز ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان میں تباہ ہونے والے پاک فضائیہ کے ہیلی کاپٹر کو امریکہ کے ڈرون نے نشانہ بنایا ہے، یہ وہی ڈرون تھا جس کو القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کوہلاک کرنے کے لیے استعمال میں لایا گیا ، امریکہ کے سرکاری اداروں کی جانب سے اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی نہ ہی پاک فوج نے کسی بھی حملے کے متعلق بتایا گیا ہے ، انٹیلی جنس ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہیلی کاپٹر کے ملبے سے اس بات کا باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کومیزائل سے نشانہ بنایا گیا ہے عام حالات میں گرنے والے ہیلی کاپٹر کے ٹکڑے بڑے سائز کے ہوتے ہیں، لیکن اس واقعہ میںہیلی کاپٹر کا ملبہ کرچیوں میں تقسیم دکھائی دیا، بلکہ کوئی بڑا ٹکڑا دیکھنے میں نہیں ملا اور ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب ہیلی کاپٹر یا طیارے کو میزائل سے نشانہ بنایا جائے، کیونکہ ہنگامی لینڈنگ کے دوران ہیلی کاپٹر کو زیادہ نقصان نہیں پہنچتا ہے ۔ اس کے علاوہ امریکہ کے سوشل میڈیا میں بھی یہ اطلاعات گردش میں ہیں کہ پاکستانی ہیلی کاپٹر کو امریکی ڈرون سے نشانہ بنایا گیا ہے ، ٹوئیٹر پر اکثر صارفین شہید ا اور ان کے خاندان سے اظہار افسوس کر رہے ہیں ، الجزیرہ سمیت عرب میڈیا نے بھی پاکستان میں امریکی بیسز کے قیام اور ہیلی کاپٹر کے ڈرون کے نشانے پر آنے کے متعلق اطلاعات دی جا رہی ہیں ، پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں حادثے کا شکار ہونے والے فوجی ہیلی کاپٹر کا ملبہ تلاش کر لیا گیا ہے اور اس حادثے میں کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سیلاب کے حوالے سے امدادی کارروائیوں میں شریک اس ہیلی کاپٹر کا ملبہ وندر کے علاقے میں موسیٰ گوٹھ سے ملا۔ادارے کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ حادثہ خراب موسم کی وجہ سے پیش آیا۔اس حادثے میں شہیدہونے والوں میں کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، ڈائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈز میجر جنرل امجد حنیف ستی اور انجینئرنگ کور کے بریگیڈیئر محمد خالد کے علاوہ عملے کے تین ارکان بشمول پائلٹ میجر سعید احمد، پائلٹ میجر محمد طلحہ منان اور نائیک مدثر فیاض شامل ہیں۔پائلٹ میجر سعید کو لاڑکانہ اور شہید چیف نائیک مدثر فیاض کو شکر گڑھ میں فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا، پائلٹ میجر سعید تنیو کے جسد خاکی کو ان کے آبائی گھر لے جایا گیا، جہاں اہل خانہ نے آخری دیدارکیا جس کے بعد شہید کی نماز جنازہ گاؤں سجاول تنیو میں ادا کی گئی ، نماز جنازہ میں اہل خانہ، عسکری و سول سوسائٹی ممبران کے علاوہ ایس ایس پی اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ نے پیر کی شب بتایا تھا کہ آرمی ایوی ایشن کا یہ ہیلی کاپٹر پیر کی شام اوتھل سے کراچی جاتے ہوئے لاپتہ ہوا تھا۔ ہیلی کاپٹر پانچ بج کر 10 منٹ پر اوتھل کے علاقے سے اڑا اور اس نے چھ بج کر پانچ منٹ پر کراچی پہنچنا تھا تاہم راستے میں اس کا رابطہ ایئر ٹریفک کنٹرول سے منقطع ہو گیا۔ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ منقطع ہونے کے بعد اس کی تلاش کا عمل شروع کر دیا گیا تھا جس میں منگل کی صبح ہیلی کاپٹر بھی شامل ہوئے تھے۔آئی ایس پی آر کے اعلان سے چند گھنٹے قبل لسبیلہ پولیس کے ایک سینئر افسر نے بی بی سی اردو کے محمد کاظم کو بتایا ہے کہ ہیلی کاپٹر کا ملبہ ساکران میں موسیٰ گوٹھ کے علاقے سے ایک پہاڑی سے ملا ہے اور پولیس کے علاوہ ایف سی اور فوج کے اہلکار بھی جائے حادثہ پر پہنچ گئے ہیں۔اس سے قبل ڈی آئی جی پولیس قلات رینج پرویز خان عمرانی نے بتایا تھا کہ تلاش کے سلسلے میں جب مقامی لوگوں سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ آخری مرتبہ پولیس سٹیشن ساکران کی حدود میں ہیلی کاپٹر کے گزرنے کی آواز سنی گئی تھی۔بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ فوجی افسران جس ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہے تھے وہ ساکران میں موسیٰ گوٹھ کے قریب ‘کچھ کراڑو’ کے پہاڑی سلسلے میں گر کر تباہ ہوا ہے۔لسبیلہ کے مقامی وڈیرے غلام شفیع نے بتایا کہ انھوں نے نہ صرف خود ہیلی کاپٹر کی تلاش میں حصہ لیا بلکہ دیگر مقامی افراد نے بھی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ساتھ تلاش کا سلسلہ گذشتہ شب ہی شروع کر دیا تھا۔انھوں نے بتایا کہ جس علاقے میں یہ ہیلی کاپٹر گرا وہ بنیادی طور پر ایک دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے۔ڈی آئی جی پولیس قلات رینج پرویز خان عمرانی نے بتایا کہ حادثے سے دوچار ہونے والے ہیلی کاپٹر کو آخری مرتبہ مقامی لوگوں نے ساکران کے اْوپر سے گزرتے دیکھا تھا۔یہاں ایک چوپان نے صبح ہیلی کاپٹر کے ملبے کو دیکھا تھا جنھوں نے اس کے بارے میں وہاں کے لوگوں کو بتایا تھا جنھوں نے آگے انتظامیہ کو آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ معروف عشقیہ داستان کے اہم کردار سسی اور پنوں کی درگاہ سے یہ علاقہ بیس سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ خود ساکران لسبیلہ کے ہیڈ کوارٹر اوتھل سے جنوب میں اندازاً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔اوتھل کے مقامی صحافی پیر بخش کلمتی نے بتایا کہ اس علاقے میں لوگوں کے معاش اور روزگار کا انحصار زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ ہے۔یاد رہے کہ ضلع لسبیلہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب میں اندازاً سات سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جنوب میں لسبیلہ کی سرحد پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی سے متصل ہے، کراچی کے علاوہ اس ضلع کی سرحدیں خضدار اور آوران سے بھی متصل ہیں، آوران کا شمار ان اضلاع میں ہوتا ہے جو کہ شورش سے زیادہ متاثر ہیں،کور کمانڈر امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے آئے تھے۔