نیویارک (پاکستان نیوز)ٹرمپ حکومت نے تارکین وطن کے بعد اب اوورسیز طلبا کو نشانے پر لے لیا ہے اور نئے قوانین کے مطابق آن لائن کلاسز لینے والے لاکھوں تارکین طلبا کو اب اپنے آبائی وطن واپس جانا ہوگا ، اس قانون سے8 ہزار پاکستانی طلبہ بھی متاثر ہو ں گے، بیشتر کا تعلق چین اور بھارت سے ہے، ٹرمپ انتظامیہ پر شدید تنقیدکی جانے لگی۔ امریکا کے تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم لاکھوں غیرملکی طلبا کو پہلے سے جاری شدہ ویزے کے رولز میں امیگریشن حکام نے اچانک تبدیلی کر کے امریکا میں موجود لاکھوں غیرملکی طلبا کیلئے انتہائی پریشان کن صورتحال پیدا کر دی ہے، جن امریکی درسگاہوں میں کیمپس اور کلاس روم میں تعلیم کی بجائے تمام کورسز کی تعلیم ”آن لائن“ دی جا رہی ہے ایسی درسگاہوں میں زیرتعلیم غیرملکی طلبہ کو امریکا چھوڑنے اور اپنے وطن واپس جا کر ”آن لائن“ کورسز مکمل کرنا ہونگے۔امیگریشن حکام کی جانب سے ویزہ رولز کی اس تبدیلی کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف گزشتہ سال امریکا نے 10 لاکھ سے زائد طلبا کوویزےجاری کئے تھے اور کئی لاکھ غیرملکی اسٹوڈنٹ ویزا ہولڈرز گزشتہ برسوں سے امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیرتعلیم ہیں اور اپنی چار سال یا اس سے کم مدت کی ڈگری پروگرام کو مکمل کر رہے ہیں۔اس تبدیلی کے نتیجے میں امریکی درسگاہوں پر شدید دباﺅ آ گیا ہے کہ وہ کورونا کے پھیلاﺅ اثرات اور اموت کو نظرانداز کر کے اپنے کیمپس کھول دیں اور کلاس رومز میں تعلیم کا سلسلہ جزوی یا کلی طور پر بحال کریں ورنہ غیرملکی طلبہ کو امریکا چھوڑ کر اپنے وطن جاکر ”آن لائن“ اپنی تعلیم مکمل کرنا ہوگی۔جاری کردہ تازہ اعلامیہ کے نتیجے میں امریکا کی تعلیمی درسگاہوں کے منتظمین اور غیرملکی اسٹوڈنٹ ویزا ہولڈرز میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں کو غیرملکی طلبہ سے اربوں ڈالرز کی فیس اور آمدنی حاصل ہوتی ہے جبکہ غیرملکی طلبہ کو ترقی یافتہ امریکی تعلیمی نظام سے ڈگری اور تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ان طلبہ کی آمد اور امریکا میں رہائش کے اربوں ڈالرز امریکی معیشت میں شامل ہوتے ہیں،اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس تبدیلی کے خلاف کوئی قانونی اقدام کر کے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا جائے۔امریکا کی سابق امیگریشن ڈورس میسز نے ویزہ رولز کی اس اچانک تبدیلی پر تنقید کرتے ہوئے اسے امریکی درسگاہوں اور خود امریکا کے معاشی اور قومی مفاد کے خلاف قرار دیتے ہوئے امریکا میں موجود غیرملکی طلبہ کے ساتھ ناانصافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے بڑے منفی اثرات ہوں گے۔بعض میڈیکل ماہرین نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس تبدیلی کے باعث اگر تعلیمی ادارے کھولے گئے تو پہلے ہی کئی امریکی ریاستوں میں کورونا وائرس کے پھیلاﺅ میں شدت ا?ئی ہوئی ہے اور غیرملکی اور امریکی طلبہ کو درسگاہوں کے کلاس رومز میں آ کر کلاسیں اٹینڈ کرنے سے کورونا کے مزید پھیلنے کا خطرہ بڑھے گا۔