یوکرائنی صدر کا جنگ بندی کے دعوئوں پر اظہار برہمی

0
129

واشنگٹن (پاکستان نیوز) یوکراینی صدر وولودی میر زیلنسکی نے روس کے ساتھ جنگ بندی کے حوالے سے نیویارک ٹائمز اور ہینری کسنجر کے دعووں پر برہمی کا اظہار کیا ہے ، نیویارک ٹائمز اور ہینری کسینجر کی جانب سے دعویٰ سامنے آیا تھا کہ یوکرائنی صدر نے روس سے جنگ بندی کے تناظر میں متنازعہ علاقہ خالی کر دیا ہے ۔یوکرائن کے صدر نے بدھ کے روز اپنے خطاب میں ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے دوران کسنجر کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سابق وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ یوکرین کو روس کے ساتھ ایک معاہدے پر بات کرنی چاہئے ، کسنجر کے مطابق معاہدہ روس کو جزیرہ نما کریمیا اور ڈونباس کے کچھ حصوں پر کنٹرول برقرار رکھنے کی اجازت دے گا، یوکرائنی صدر نے دلیل دی کہ 15 سال کی عمر میں نازی افواج سے فرار ہونے والے کسنجر کو بہتر طور پر جاننا چاہئے۔اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ روسی ریاست کیا کرتی ہے، رواں برس ڈیووس میں ہونے والے اجلاس کے دوران ہزاروں روسی میزائلوں کے یوکرین کو نشانہ بنانے، دسیوں ہزار یوکرینیوں کے مارے جانے، روسی ریاست کی طرف سے بنائے گئے ”فلٹریشن کیمپوں” ، تشدد، عصمت دری اور تذلیل کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔یوکرین کے صدر نے 1938 کے میونخ معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، جس میں برطانوی وزیر اعظم نیویل چیمبرلین نے نازی جرمنی کو چیکوسلواکیہ کے حصے پر قبضہ کرنے کی اجازت دینے سے بچنے کی کوشش کی تھی، میونخ معاہدہ ہٹلر کو نازی قبضے کی کوششوں کو بڑھانے سے روکنے میں ناکام رہا۔یوکرائنی رہنما نے یہ بھی تجویز کیا کہ 98 سالہ کسنجر نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں کبھی بھی یورپیوں کو نازی حکومت کے مطابق ڈھالنے کا مشورہ نہیں دیا تھا۔ 1938 میں جب مسٹر کسنجر کا خاندان نازی جرمنی سے فرار ہو رہا تھا، اس وقت ان کی عمر 15 سال تھی، اور وہ ہر چیز کو بخوبی سمجھتے تھے۔ اور اس وقت کسی نے ان سے یہ نہیں سنا کہ نازیوں کے ساتھ ڈھلنا ضروری تھا۔ ان سے بھاگنا یا ان سے لڑنا۔یوکرین کے صدر نے ”کچھ مغربی میڈیا” کے آؤٹ لیٹس کے خلاف بھی تنقید کی جنہوں نے نیو یارک ٹائمز کو الگ کرتے ہوئے خوشامد کی اسی طرح کی تجاویز پیش کیں۔یوکرائنی صدر نے کہا کہ کچھ مغربی میڈیا میں علامتی اداریے شائع ہونے لگے جس میں کہا گیا تھا کہ یوکرین کو مبینہ طور پر امن کے بدلے علاقے کو چھوڑ کر نام نہاد مشکل سمجھوتوں کو قبول کرنا چاہئے۔ شاید 1938 میں نیویارک ٹائمز نے بھی کچھ ایسا ہی لکھا تھا۔ لیکن اب میں آپ کو یاد دلاتا ہوں، یہ 2022 ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here