نیویارک (پاکستان نیوز)امریکہ بھر میں افرادی قوت میں شدید کمی کے باعث اشیا ضروریہ کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگی ہیں ، ملکی سطح پر افرادی قوت میں کمی کی وجہ سے بھی کمپنیاں اشیا کی ڈیمانڈ پوری نہیںکر پا رہی ہیں جس کی وجہ سے روز مرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ، 2008 کے بعد روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں 5.3 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ، دو بچوں سمیت چار افراد پر مشتمل خاندان جوکہ ایک ہفتے کے گراسری کے لیے 50 ڈالر خرچ کرتا تھا کو اب 70 ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں ، اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں ہر روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، الیسن نامی شہری نے بتایا کہ پہلے میں گراسری 70 ڈالر میں خرید لیتا تھا لیکن اب میرا بل 120 ڈالر سے زائد رہتا ہے ، موڈی کے چیف اکنامسٹ مارک زینڈی نے بتایا کہ لوگوں کو کھانے ، فیول ، ہائوس ہولڈنگ میں اضافی 175 ڈالر ادا کرنا پڑ رہے ہیں ، پیپسی کو کی جانب سے 2022 کے دوران اشیا کی قیمتوں میں مزید اضافے کا اعلان کیا گیا ہے ، 10اونس کے لیز کے پیکٹ کی قیمت میں پچاس سینٹ کا اضافہ ہواہے ، کوکا کولا کین ، دودھ کی گیلن اور کافی کی قیمتوں میں 50 سے 85 سینٹ کا اضافہ یکارڈ کیا گیا ہے۔لیبر ڈیپارٹمنٹ کے کنزیومر پرائس انڈیکس کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق اگست 2008 کے بعد 12 ماہ کے دوران روز مرہ اشیا کی قیمتوں میں 5.4 فیصدکا اضافہ سامنے آیا ہے ، ڈو جونز کے اکنامسٹ سروے کے مطابق ہر ماہ مہنگائی کی شرح میں 0.3 فیصد تک اضافہ ہوگا ، ٹرانسپورٹیشن ، سیاحت ، ریٹیل اور دیگر شعبوں میں افرادی قوت کی شدید قلت کے باعث بھی روز مرہ اشیا کی قیمتوں میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ، ماہرین کے مطابق ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق کی بڑی وجہ کرونا لاک ڈائون کے دوران غیرمعمولی حالات ہیں ، لاکھوں ملازمین بے روزگار ہوئے ، زیادہ تر آبائی ریاستوں سے منتقل ہوگئے اور کچھ نے تو امریکہ کی بجائے دیگر یورپی ممالک کا رخ کر لیا ہے جس کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں ۔امریکہ میں آج کل لوگ مہنگائی سے پریشان ہیں۔ آخری بار 1970 کے عشرے میں جب افراط ِزر کی لہر آئی تھی تو قیمتیں اور اجرتیں بہت بڑھ گئی تھیں۔ اس بار اگرچہ سرکاری طور پر افراط ِ زرکی شرح اب بھی نسبتاً کم ہے، لیکن اجرتیں ایک جگہ ٹہر گئی ہیں اور کھانے پینے اور ایندھن جیسی عام ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے،افراط زر کی وجہ سے بیشتر امریکیوں کی حالت بھی پتلی ہے۔ عام استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں سالانہ دو اعشاریہ سات فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے جب کہ فی گھنٹہ کام کرنے کی اجرتیں ایک فیصد سے بھی کم بڑھی ہیں۔افراطِ زر سے دہرا نقصان ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو معقول تنخواہوں والوں کو جاب نہیں ملتی اور پھر سالانہ اضافہ بھی نہیں ہوتا اور دوسری طرف آپ کو ہرچیز کی زیادہ قیمت ادا کرنی ہوتی ہے۔ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ توانائی اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے افراطِ زر بڑھ رہا ہے ، اقتصادی ماہر ڈینی کہتے ہیں کہ لمبی مدت کے دوران تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا کیوں کہ تیل کی مقدار محدود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فی الحال ، امریکہ میں رہنے والے گھرانوں کو بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنا ہوگا۔ کیوں کہ امریکی معیشت شدید کساد بازاری سے باہر نکل رہی ہے، اس لیئے سود کی شرح بڑھانے سے، جو افراط ِ زور پر قابو پانے کا عام طریقہ ہے، حالات اور زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔ ”متوسط طبقہ بری طرح متاثر ہو اہے۔ ہم یہ نہیں چاہیں گے کہ پالیسی ساز افراط ِ زر کو کنٹرول کرنے کے لیئے ضرورت سے زیادہ سخت اقدامات کریں کیوں کہ اس طرح امریکہ میں اقتصادی بحالی کا عمل تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔ ایسی پالیسی دانشمندی کے خلاف ہو گی،ماہرین کا خیال ہے کہ روس جیسے ملکوں میں خشک سالی ، مشرقِ وسطیٰ میں ہنگامے اور عالمی سطح پر ریفائنری کی گنجائش کم ہونے کی وجہ سے غذائی اشیاء اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔