سولہ دسمبر کے ہولناک اور دردناک سانحات!!!

0
232
رمضان رانا
رمضان رانا

سات دسمبر 1970ء کو متحدہ پاکستان میں عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں جس میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے 162 کی کل نشستوں میں 160نشستیں حاصل کیں جبکہ جنوبی پاکستان میں دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں پی پی پی اورصوبہ بلوچستان اور سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام اکثریتی پارٹیاں اُبھر کر سامنے آئیں۔ جس میں عوامی لیگ نے ایک کروڑ 29 لاکھ پی پی پی، 61 لاکھ جماعت اسلامی ، 19 لاکھ مسلم لیگ جنیجو گروپ اور دوسری پارٹیاں کامیاب ہوئیں جس میں عوامی لیگ کے ووٹرز نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حب الوطنی کا ثبوت پیش کیا۔ پاکستان کا یہ پہلا موقع تھا کہ ملک بھر میں سوشل اور نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹیاں کامیاب ہوء تھیں جس سے امید پیدا ہوئی تھی کہ اب پاکستان میں نو آبادیاتی و جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوگا جس میں بنگالی مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس عوام کا بہت بڑا رول ہوگا مگر م؟غربی پاکستان کے جنرلوں اور جاگیرداروں نے مشرقی پاکستان کے عوام کو اقتدار دینے سے انکار کر دیا جس کے رد عمل میں تاریخی احتجاجی تحریک نے جنم لیا جس کیخلاف جنرل یحییٰ خان اور جنرل نیازی نے فوج کشی سے ملک توڑنے کا کردار ادا کیا تھا۔
جنہوں نے اقتدار دینے کیلئے شرطیں رکھ دیں کہ پہلے جنرل یحییٰ خان ارو دوسرے جنرلوں کی عیش و عشرت کیلئے صدارت کا عہدہ قبول کیا جائے۔ جب عوامی لیگ کی قیادت نے یہ شرط بھی مان لی تو جنرلوں نے مختلف حٰلے بہانے پیش کر کے بنگالی عوام کیخلاف فوج کشی کا آغاز کر دیا جس میں روزانہ ہزاروں لوگوں کا قتل عام ہوا جس کو تاریخ کبھی بھول نہیں سکتی ہے۔ چنانچہ ڈھاکہ پارلیمنٹ کا پی پی پی کے سربراہ زیڈ اے بھٹو نے بائیکاٹ کیا جبکہ مغربی پاکستان سے ولی خان شاہ احمد نورانی، اصغرخان اور رضا قصوری نے ڈھاکہ جا کر پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا۔ شیخ مجیب ابھی اجلاس بلانے والے ہی تھے کہ جنرلوں نے پورے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن تیز کر دیا جس میں مشرقی پاکستان میں آنے جانے والے سمندری، میدانی اور ہوائی راستے بند کر دیئے گئے۔ جس کیخلاف بنگالی عوام کی مزاح نگاری کا آغاز ہوا۔ جو ملک ٹوٹنے 90 ہزار لیگی جنگی قیدی اور بھار ت کی مداخلت کے باعث بنا جس کے بعد مشرقی پاکستان بنگال سے بنگلہ دیش بن گیا۔ یہ وہ سازش تھی جس بنیاد چودہ اکتوبر 1955ء میں محمد علی بوگرہ نے رکھی تھی کہ جس میں قائد کے پاکستان کو مشرقی اور مغربی پاکستان میں بانٹ دیا گیا تھا جس کی بنگالی عوام نے شدید مخالفت کی تھی۔ جو صرف صوبہ بنگال کے حامی تھے جن کے مد مقابل ایوب خان کے دور آمریت میں مغربی حصے کے چاروں صوبوں پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان پر مشتمل مغربی پاکستان کا نام دیا گیا جو ون یونٹ کے نام سے مشہور ہوا تاکہ بنگالی اکثریتی صوبے بنگال کے عوام کو نیچا دکھایا جائے۔ بعد ازاں جنرل ایوب خان نے اپنے وزیر قانون جسٹس منیر احمد کے ذریعے بنگالی عوام کو الگ کنفیڈرل ریاست بنانے کیلئے ملک توڑنے کے مذاکرات منعقد کرنے کیلئے کہا گیا جس کو بنگالی قیادت نے مکمل طور پر رد کر دیا جن کا دعویٰ تھا کہ پاکستان ہم نے بنایا ہے ہم کیسے پاکستان سے الگ ہو سکتے ہیں جس کے بعد بنگالی قیادت پر اگر شیخ مجیب سازش کیس بنایا گیا جس میں بھی جنرل ایوب خان ناکام ہوئے آخر کار جنرل نے 1970ء کے انتخابات کا سہارا لے کر عوامی لیگ کو اقتدار سے محروم کر کے فوج کشی کے ذریعے پاکستان کو دو لخت کر دیا جس کیخلاف جسٹس حمود الرحمن کی سرپرستی میں کمیشن بنا جس میں جنرلوں کی ملک توڑنے کا مجرمین ٹھہرایا گیا وہ رپورٹ پر عمل درآمد کرنے کی بجائے رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔ اگر ملک توڑنے والے جنرلوں پر مقدمات قائم ہوئے اور انہیں سخت سے سخت سزائیں دی جائیں تو پاکستان دوبارہ متحد ہو جاتا۔ یا پھر دوبارہ کسی جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق، اور جنرل مشرف کی طرح آئین پامال، قانون شکنی اور منتخب حکومتوں پر قبضے کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ مزید برآں سولہ دسمبر چلا گیا ہے کا بھی ایک فوجی سانحہ گزرا ہے جس پر پوری قوم سوگوار ہو گئی جس میں پالتو دہشتگردوں نے پشاور آرمی اسکول کے تمام تر چوکیوں کے باوجود بچوں اور استادوں کو بموں اور گولیوں سے بھون دیا جس پر آج تک تمام ادارے اور عدالتیں خاموش بنے بیٹھے ہیں۔ آج ان دہشتگردوں کیساتھ جنگ بندی کے مذاکرات جاری ہیں جنہوں نے پاکستان کے ہزار شہری اور چھ ہزار پاک فوج کے جوانوں کو بے رحمی سے قتل کیا ہوا ہے جنہوں نے ریاست پاکستان کیخلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں جن کے گرفتار ترجمان احسان اللہ احسان کو جیل سے بھگا دیا گیا ہے بہرحال سولہ دسمبر کے دونوں سانحات پر سوال و جوابات آج تک جاری ہے کہ یہ کیوں اور کس کیلئے رونما ہوئے ہیں جس میں 16 دسمبر 1971ء میں جنرل یحٰٰیٰ خان، جنرل اے کے نیازی اور دوسرا ٹولہ ملوث تھا جبکہ 16 دسمبر 2014ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چوکیوں کے باوجود سانحہ برپا کیا گیا جس میں وہ دہشت گرد ملوث پائے گئے ہیں جنہوں نے ہزاروں پاکستانیوں کا قتل عام کیا ہوا ہے جن کیساتھ جنگ بندی کے مذاکرات جاری ہیں جبکہ بنگالی عوام کیساتھ مذارکات کو سبو تاژ کیا گیا تھا جس کے گواہان جنرل راجہ خادم حسین، بریگیڈیئر صدیق سالک، جنرل اسلم بیگ، ایئر مارشل اصغر خان، جنرل اسد درانی موجود ہیں جنہوں نے اپی کتابوں ار بیانوں میں بنگالی عوام کیساتھ ریاستی زیادتیوں کا ذکر کیا ہے ایسے میں ایک وسیع عالمی کمیشن کی تشکیل دینا چاہیے جو پارلیمنٹیرین ججوں اور انتظامیہ کے اہلکاروں پر مشتمل ہو جو جنرل ایوب خان سے آج تک سازوں میں ملوث لوگوں کو سزا دے قبروں سے ہڈیوں کو نکال کر سزا دینے کی ضرورت پڑے جن کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہوا ہے تاکہ ملک توڑنے آئین پامال کرنے سول منتخب حکومتوں کیخلاف جنرلوں کا خاتمہ ہو جن کیخلاف پاکستان کے بائیس کروڑ عوام سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here