کابل(پاکستان نیوز) امن معاہدے کے بعد امریکہ نے افغانستان میں طالبان پر پہلا فضائی حملہ کیا ہے۔ امریکی فوج نے کارروائی کو افغان فورسز پر طالبان کے حملوں کا دفاع قرار دیا ہے۔ افغانستان میں موجود امریکی فوج کے ترجمان کرنل سونی لیگیٹ نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ صوبہ ہلمند میں نہر سراج کے قریب فضائی کارروائی کی گئی ہے۔ اس حملے میں اْن طالبان جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا جو افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز کی چوکی کو نشانہ بنا رہے تھے۔ کرنل سونی لیگیٹ نے مزید کہا کہ گزشتہ 11 دن میں یہ طالبان کے خلاف کیا گیا پہلا حملہ تھا۔ انہوں نے اس کارروائی کو دفاع میں کیا گیا حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد طالبان کو افغان فورسز پر حملے سے روکنا ہے۔ امریکہ کی طرف سے طالبان پر ایسے موقع پر حملہ کیا گیا ہے جب طالبان نے ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے فوراً بعد افغان سیکیورٹی فورسز پر حملے شروع کر دیے تھے۔ افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان نے بدھ کو ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ تین مارچ کو طالبان نے صوبہ ہلمند میں افغان فورسز کی چوکیوں پر 43 حملے کیے۔ اْن کے بقول، طالبان افغانستان کو غیر ملکی فوج سے آزاد کرانے تک لڑائی کا دعویٰ کرتے ہیں جب کہ 29 فروری کو ہونے والے امن معاہدے میں فوج کے انخلا کے حوالے سے مختلف شرائط موجود ہیں۔ کرنل سونی لیگیٹ نے کہا کہ طالبان قیادت نے بین الاقوامی برادری کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ تشدد میں کمی لائیں گے اور حملوں میں اضافہ نہیں ہو گا۔ انہوں نے طالبان پر حملے روکنے اور اپنی یقین دہانیوں پر عمل کرنے پر زور دیا۔ کرنل سونی لیگیٹ کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنے اتحادیوں کا دفاع کرتے رہیں گے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ ہم امن کے قیام کے خواہاں ہیں اور ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی اتحادی فوج کا دفاع کریں۔ افغانستان میں جاری 19 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ اس معاہدے پر امریکہ کی جانب سے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد جب کہ طالبان کی جانب سے ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کیے تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان کی جانب سے یقین دہانیوں کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی۔ امن معاہدے کی رو سے امریکہ اور اس کے اتحادی 14 ماہ میں افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کریں گے۔ اس دوران طالبان کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ فوجی انخلا کے پہلے مرحلے میں افغانستان میں تعینات 13 ہزار فوجیوں کی تعداد ساڑھے چار ماہ میں 8600 تک لائی جائے گی۔ اس کے بعد باقی فوجیوں کا انخلا ساڑھے نو ماہ میں ہو گا۔ معاہدے کے تحت طالبان اس بات کی ضمانت دیں گے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ معاہدے کی رو سے افغان حکومت کی قید میں موجود 5000 طالبان قیدیوں کو رہائی ملنی تھی۔ تاہم افغان صدر اشرف غنی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔