فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ پاک نے حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کو بہت بڑا مقام عطا فرمایا ہے۔ سب اولیاء کرام نے اس بات کو بغیر کسی چون وچرا کے قبول کیا ہے۔ اور تسلیم کیا ہے حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں اعلیٰ حضرتت عظیم البرکت رضی اللہ عنہ نے نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے۔
راج کیس شہر میں کرتے نہیں تیرے خدام
باج کس شہر سے لیتا نہیں دریا تیرا
ایک مرتبہ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کچھ لکھ رہے تھے کہ تین مرتبہ چھت سے مٹی گری۔ دیکھا تو چوہا مٹی گرا رہا تھا۔ آپ نے جلال کی نگاہ سے دیکھ کر فرمایا: ”تیرا سراُڑ جائے” اسی وقت چوہے کا سر تن سے جدا ہوگیا(قلاء الجواہر، تحفہ قادریہ) شیخ عمر بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن وضو فرماتے ہوئے چڑیا نے آپ پر بیٹ گرا دی تو آپ رضی اللہ عنہ نے نگاہ جلال سے صرف اس کو دیکھا ہی تھا کہ وہ گر کر مر گئی۔ وضو سے فارغ ہو کر آپ نے کپڑا دھویا اور بیچ کر رقم خیرات کردی اور فرمایا کہ یہ اس کا بدلہ ہوگیا(قلاء الجواہر)
سورج اگلوں کے چمکتے تھے، چمک کر ڈوبے
افق نور یہ ہے مہر ہمیشہ تیرا
ایک مرتبہ خلیفہ وقت المستنجد باللہ ابولمفظر یوسف عباسی نے حاضر ہو کر عرض کیا، میں اطمینان قلب کے لئے آپ کی کوئی کرامت دیکھنا چاہتا ہوں، فرمایا! جو تو کہے گا میں وہ دکھا دوں گا۔ چونکہ سیب کا موسم نہیں تھا اس نے کہا کہ میں سیب چاہتا ہوں آپ نے ہاتھ مبارک پھیلایا تو اس میں دو سیب آگئے آپ نے ایک خلیفہ کو دیا اور دوسرا اپنے پاس رکھا، جب آپ نے اپنا سیب کاٹا تو وہ اندر سے سفید تھا اور کستوری کی سی خوشبو آرہی تھی اور خلیفہ کے سیب سے کیڑا نکلا۔ آپ نے فرمایا چونکہ ظالم خلیفہ کا ہاتھ سیب کو لگا ہے اس لئے سیب میں کیڑا پیدا ہوگیا ہے بہجة الاسرارم !
بندہ پروردگارم امت احمد نبی
دوست دار چار یارم، تابع اولاد علی
مذہب حنفیہ دارم، ملت حضرت خلیل
خاک پائے غوث اعظم زیر سایہ ہر ولی
سبحان اللہ! ہمیں کتاب ملی تو قرآن پاک جوکہ کتاب اعظم ہے۔ رسول ملا تو محمدۖ جو رسول اعظم ہیں۔ فاروق ملا تو فاروق اعظم ملا، امام ملا تو امام اعظم ملا، مجدد ملا تو مجداعظم، محدث ملا تو محدث اعظم ملا اور غوث ملا تو غوث اعظم ملا، رضی اللہ وتعالیٰ عنھم اجمعین، حدیث مبارکہ میں ہے کہ دعا سے قضا بدل جاتی ہے۔(مشکواة شریف195) ابوالمظفر الحسن بن نعیم، نامی گرامی تاجر تھا۔ اس نے شیخ حماد الدباس رضی اللہ عنہ کے سامنے عرض کیا۔ یاد رہے کہ حضرت حماد رضی اللہ عنہ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے استاد محترم ہیں۔ ان کے سامنے ابوالمظفر الحسن عرض گزار ہوئے تھے کہ میرا ارادہ ملک شام جانے کا ہے۔ قافلہ تیار ہے اور سات سو دینار کا سامان میرے پاس ہے۔ شیخ نے فرمایا کہ تم اس پورے سال سفر کا ارادہ ترک کر دو۔ ورنہ تمہارے مال اور جان کو خطرہ ہے۔ تاجر پریشان ہوگیا۔ واپس جارہا تھا کہ غوث پاک رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی۔ شیخ حماد رضی اللہ عنہ کا فرمان عرض کیا تو غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم سفر پر جائو، میں ضامن ہوں کوئی نہیں ہوگا، فائدہ ہی ہوگا۔
چنانچہ تاجر خوشی خوشی سفر پر چلا گیا۔ سات سو دینار کا سامان ایک ہزار دینار میں فروخت کرکے کسی کام سے حلب گیا گیارہ ہزار دینار ایک محفوظ مقام پر رکھے اور پھر بھول گیا کہ کہاں رکھے ہیں۔ نیند کا غلبہ تھا سو گیا خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ عرب کے بدوئوں نے قافلے پر حملہ کرکے کئی افراد کو قتل کردیا ہے اور سامان لوٹ لیا ہے اور خود اس کا سامان بھی خواب میں لٹ گیا ہے۔ اور قتل بھی ہوگیا ہے گھبرا کے اٹھا تو دینار بھی یاد آگئے لے کر فوراً بغداد شریف کی تیاری شروع کردی۔ بغداد شریف پہنچا تو سوچا کہ شیخ حماد کے پاس پہلے حاضری دوں یا غوث پاک کے پاس۔ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ”سوق سلطان” میں شیخ حماد مل گئے اور اسے فرمایا کہ پہلے حماد کے پاس نہیں بلکہ غوث اعظم کے پاس جائو۔ جنہوں نے ستر مرتبہ تمہارے لئے دعا کرکے تمہارے قتل اور مال لٹنے کے بیداری کے واقعہ کو خواب میں تبدیل کروا دیا ہے کچھ عرصہ رقم رکھ کر بھول جانا بھی اسی سبب سے تھا تاکہ ضائع ہونے سے بچ جائے(قلائدالجواہر، تحفہ قادریہ)
خدا کے فضل سے ہم پر ہے سایہ غوث اعظم کا
ہمیں دونوں جہاں میں ہے سہارا غوث اعظم کا
مریدی لاتخف کہہ کر تسلی دی غلاموں کو
قیامت تک رہے بے خوف بندہ غوث اعظم کا(رضی اللہ عنہ)
بس ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے کہ ہمیں غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا دامن مل گیا ہے یہ سب کرم ہے سب بزرگوں کا نیک والدین کا اور ہمدرد اساتذہ اور ساتھیوں اور حضور اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کی بصیرت کا اور حضور حجتہ الاسلام، مفتی اعظم ہند، محدث اعظم پاکستان اور شمس المشائخ نائب محدث اعظم پاکستان کا رضی اللہ عنھم ان سب بزرگوں اور دیگر معاون بزرگوں رضی اللہ عنھم کی کوششوں کا واسطہ اللہ تعالیٰ ہمیں تادم آخر اور ہماری نسلوں کو قیامت تک اس فیضان سے وافر حصہ عطا فرمائے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے ذکر خیر کی برکت سے دنیا اور آخرت کی بھلائیاں عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭