”دہشتگردی کا نیا چیلنج”

0
13

”دہشتگردی کا نیا چیلنج”

نئی حکومت کے قیام کے بعد اچانک سے ملک میں دہشتگردی کی لعنت دوبارہ سے سر اٹھانے لگی ہے ، معاشی، مہنگائی، بے روزگاری چیلنجز سے نمبرد آزما حکومت کو نیا چیلنج درپیش آ گیا ہے ، دہشتگردوں کی جانب سے یکے بعد دیگر بڑے اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے جس کو پاک فوج نے کمال بہادری سے ناکام بنا دیا ہے لیکن بلوچستان نیول بیس ، گوادر پورٹ میں حملوں میںناکامی کے بعد دہشتگردوں نے بشام میں چینی ملازمین کی گاڑی کو خودکش دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں پانچ چینی ملازمین سمیت چھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں، دہشتگردوں کی جانب سے چینی ملازمین کو نشانہ بنانے کے پیچھے پاک چین دوستی میں دراڑ ڈالنے کا منصوبہ کارفرما ہے ، جس کو ناکام بنانے کیلئے حکومت سفارتی کوششوں میں مصروف ہیں ، حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف نے چینی سفارتخانے کا دورہ کیا اور چینی سفیر سے جانی نقصان پر اظہار افسوس بھی کیا۔پاکستان میں دہشتگردی کی لہر کے تانے بانے کسی نہ کسی طور پر افغانستان سے جا کر ملتے ہیں، اسی تناظر میں پاک فوج نے گزشتہ دنوں کارروائی بھی عمل میں لائی تھی،وجوہات کچھ بھی ہوں، افغانستان پچھلے چالیس سال سے ہمسایہ ممالک کی مداخلتوں جنگوں اور انقلابات کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہے، جس کی وجہ سے سنٹرل ایشیا میں پیدا ہوئے تجارتی اور سفارتی مواقع سے پاکستان نے کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں کیا لیکن شاید اب پاکستان سمجھتا ہے کہ اس کے اور سنٹرل ایشیا کی تجارت کے درمیان افغانستان ایک دیوار بنا ہوا ہے۔ پاکستان نے چند دنوں پہلے 16 ٹرکوں کے ذریعے سرگودھا کا کینو چین سے ہوتا ہوا روس پہنچایا لیکن لگتا یوں ہے کہ یہ پاکستان کی تجارت سے زیادہ سٹریٹیجک موو تھی۔ قارئین کو یاد ہو گا، کہ طالبان کو لانچ کرنے سے پہلے جنرل بابر نے اکتوبر 1994 میں بھی اسی قسم کے پھلوں سے بھرے ہوئے این ایل سی کے ٹرک افغانستان کے راستے ترکمانستان بھیجے تھے۔ جس کے بعد افغانستان میں بڑی تبدیلیاں آنی شروع ہوئیں، جس کا اختتام افغانستان سے امریکہ کے حالیہ انخلا پر ہوا۔چین سی پیک کو انڈیا اور سنٹرل ایشیا تک پہنچانا چاہتا ہے، لیکن انڈین پاکستانی تعلقات، اور پھر پاک افغان چپقلش، اور خصوصاً پاکستان کی بے لچک فارن پالیسی اسے ایسا کرنے نہیں دیتی۔ کسی ستم ظریف نے لکھا تھا کہ پاکستان انڈیا، چائنہ اور سنٹرل ایشیا کے درمیان سڑک پر پڑا ہوا ایک بھاری پتھر ہے۔اب پاکستان کی طرف سے واخان کو قبضہ کرنے کی خواہش کی بازگشت بڑے دنوں سے مختلف فورمز ہر سنائی دی رہی ہے۔ تازہ یاد دہانی بلوچستان کے سابق وزیر اطلاعات نے کرائی ہے، جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف بھی مختلف الفاظ میں اس قسم کی بات کر چکے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے آرمی چیف جنرل آصف منیر بھی ”ایک پاکستانی کی خاطر پورے افغانستان کو لتاڑنے” کی دھمکی دے چکے ہیں۔ علاوہ ازیں افغانستان کے مہاجرین بھی واپس اپنے وطن بھیجے جا رہے ہیں۔پاکستان میں واخان قبضہ کرنے کی بازگشت کے سلسلے میں، مندرجہ بالا چیک لسٹ کے بعد ، جو واحد وجہ میری سمجھ میں آ رہی ہے، وہ پاک افغان بارڈر ہے، جس کو بین الاقوامی طور پر ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے، اور جسے ماضی میں ظاہر شاہ، داود، ترکئی، کارمل، نجیب اللہ، حکمت یار، احمد شاہ مسعود، ربانی، مجددی، ملا عمر اور اب ملا ہیبت اللہ نے بھی باہمی بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے کی بجائے روایتی افغان بیانیے سے جوڑا ہے اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر، بقول افغانستان کے، بین الاقوامی تسلیم شدہ سرحد نہیں بلکہ (بقول افغان حکام) ایک فرضی لکیر ہے، تو پھر واخان بھی اسی فرضی لکیر کا حصہ ہے، جہاں پر افغانستان کی فوجی موجودگی صفر کے برابر اور عسکری لاجسٹک سپورٹ اس سے بھی کم ہے۔ افغانستان میں روس کی مخالفت، حکمت یار کی حمایت اور مدد، پھر طالبان کی لانچنگ، اس کے بعد امریکہ کی مدد اور اب طالبان کی دوبارہ آمد کے وقت سیرینا کابل میں قہوہ کی پیالی کے ساتھ نمایاں تصویر کی، بہت ساری مالی، تکنیکی، اسلحہ جاتی اور تزویراتی فوائد کے علاوہ بنیادی سبب یہی تھا کہ افغانستان میں کوئی ایسی حکومت آ جائے جو پاکستان کے ساتھ بیٹھ کر باہمی بارڈر کے مسئلے کو پاکستان کی خواہش کے مطابق حل کر دے، لیکن، کمیونسٹ تھا، مجاہد تھا، ملا تھا یا طالب، کسی نے بھی پاکستان کے ساتھ بیٹھ کر، اس مسئلے پر، اس کی خواہش کے مطابق، معنی خیز مذاکرات کیے، نہ معاہدہ کیا۔افغان حکومت کی بین الاقوامی عدم پذیرائی، افغان مہاجرین کی واپسی، پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات کی خرابی، تجارت کی بندش، بارڈر پر پابندیاں، ایک دوسرے پر دہشت گردی کے الزامات، اور پاکستان کی جانب سے حالیہ ہوائی حملے، اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں، کہ پاکستان نے مناسب حالات میں افغانستان کے ساتھ، ایک محدود اور کنٹرول جھڑپ کا ارادہ کر لیا ہے، اب دیکھنا ہے کہ مستقبل میں حالات کس طرف موڑ لیتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here