مصر کی سرزمین عجائبات اور تاریخ میں ہونے والے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ ہمیشہ اس کے بارے میں سنتے آئے تھے سب ہماری بھانجی عروج نے اپنی امی کے ساتھ مصر جانے کا پروگرام بنایا اور مجھ سے ذکر کیا تو میں نے بھی فوراً جانے کی حامی بھرلی۔ دارسلام امریکہ میں ایک جانا پہچانا ادارہ ہے جو سیاحوں کی ہر طرح کی سیر کرانے کا ذمہ لیتا ہے۔ ہم نے بھی اسی ادارے سے بکنگ کرائی اور دل بھر کر مصر کی سیر کی۔ جب میں قاہرہ کے ایئرپورٹ پر اتری تو یقین نہیں آیا کے یہ وہ سرزمین ہے جہاں کے واقعات اور قصے سنتے آئے ہیں۔ جہاں ہمارے نبیوں نے وقت گزارا۔ پانچ ہزار سال پہلے فرعون نسل درنسل یہاں حکومت کرتے رہے۔ یہاں دریائے نیل بہہ رہا ہے ہمارا گائیڈ کا کہنا تھا کے مصر والے دریائے نیل کے اردگرد اب تک رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کے وہ یہاں سے دور گئے تو ا سکی برکت سے محروم ہوجائیں گے گہرے نیلے رنگ کا یہ دریا اپنے عام انداز میں بہہ رہا ہے مگر اپنے اندر بہت ساری تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ جب ہم چھوٹے بحری جہاز پر اس نیلے دریا میں سفر کر رہے تھے تو دل کی عجیب کیفیت تھی۔ یہ وہی دریا تھا جہاں حضرت موسیٰ کا گزر ہوا۔ یہ وہی دریا تھا جہاں حضرت موسیٰ کو باسکٹ میں رکھ کر ان کی والدہ نے بہا دیا تھا۔ جب ہم ایک چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر اسی دریا میں ایک گائوں سے دوسرے گائوں گئے تو سراب کا عجیب منظر تھا، خشکی اور پانی کا عجیب امتزاج تھا۔ ایک گائوں جس کو ولیج کہتے ہیں وہاں پر پرانے مصری آباد ہیں۔ یہ سیاہ نام لوگ ہیں جو کبھی اس گائوں سے نہیں نکلے شادیاں بھی آپس میں کرتے ہیں۔ اور محبت پیار سے رہتے ہیں پکے وسیع دالان اور کنوئیں، ان گھروں کا خاصہ ہیںجو اکیلے رہتے ہیں عمر رسیدہ ہیں اور کھانا پکانے کا اہتمام روز نہیں کر سکتے۔ یا وہ روزہ دار جو سارا دن جاب پر ہوتے ہیں۔ اکیلے ہیں اور کوئی پکانے والا نہیں ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ان مساجد کے دروازے تمام ہی لوگوں کے لیے کھلے ہیں چاہے وہ تمام افراد خانہ کے ساتھ روز آئیں غریب ہوں کے امیر ہیں۔ مخیر حضرات اپنی طرف سے افطار اور سحری کا انتظام کراتے ہیں۔ خوب ہی رونق رہتی ہے۔ ہر مسجد کی اپنی سجاوٹ ہے۔ اس کا بھی اپنا الگ ہی نور ہے۔ نمازی عشاء اور تراویح کے وقت اتنے ہوتے ہیں کے ہر مسجد میں جگہ ملنی بھی مشکل ہوتی ہے اور صرف رمضان میں ہی نہیں جمعہ کے دن ظہر کی نمازیں بھی ہر وہ تمام مساجدجو شہر میں ہیں۔ ان میں اردگرد کام کرنے والے مسلمان نمازی شرکت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مساجد بھری ملتی ہیں۔ مساجد کے لئے چندہ بھی خوب دل کھول کر دیا جاتا ہے۔ پوری پراپرٹی خریدنا کوئی آسان کام نہیں ہے مگر اتنا چندہ جمع ہو جاتا ہے کے باقاعدہ بلڈنگیں خریدی گئی ہیں۔ زمین خرید کر مسجدیں بنوائی گئی ہیں۔ رات کو تھک ہار کر سوئے کے دوسرے دن اہورام مصر دیکھنے جانا تھا۔ صبح ہی صبح پورا گروپ تیار ہو کر بس میں بیٹھا۔ اب تو یہ جگہ شہر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ راستے میں وہ مسجد نظر آئی جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے بنائی تھی۔ میناروں والی بلیو ٹرکش مسجد کی طرح سلطان صلاح الدین ایوبی کا قلعہ بھی وسیع وعریض ہے جو کے سخت پتھروں سے بنا ہواق ہے۔ آج تک اسی طرح اپنی جگہ پر یہ قلعے جنگ کے دنوں میں اپنے عوام کی حفاظت کرتے تھے۔
اہرام مصر ایک عجوبہ ایک حیرت انگیز شاہکار ہیں۔ کے اندر مصری اپنی لاشیں رکھتے تھے پانچ ہزار سال پہلے یہ عقیدہ تھا کے جب مرنے کے بعد خدا کے روبرو پیش ہوں تو اپنے اصلی خدوخال کے ساتھ اپنے زیورات کے ساتھ اس لئے اس طرح کے اہرام بنائے گئے تھے جو کے ان کی لاشوں کے خراب نہ کریں۔ ان پر معاملے لگائے جاتے اور پھر زیورات کے ساتھ یہاں رکھ دیا جاتا یہ لاشیں ابھی تک وہاں ہیں۔ یہ تو بادشاہوں کے اہرام تھے۔ اس لئے اتنے بڑے تھے مگر اس طرح کے چھوٹے اہرام بھی بنائے جاتے ہر کام حیثیت کے حساب سے ہوتا۔ خدشہ یہ تھا کے یہ زیورات اور خزانے چوری ہوسکتے ہیں اس لئے پہاڑیوں کو کاٹ کر ایسی شکل دی گئی کے اندر جانا آسان نہ ہو۔ یہPYRAMiDSبہترین آرٹ کا نمونہ بھی ہیں۔ اور اس زمانے کے کلچر سے بھی آگاہ کرتے ہیں آج تک کھدائی کے دوران اس زمانے کے بادشاہوں کی لاشیں خزانے سمیت نکل رہی ہیں۔
٭٭٭٭