ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں ملکی سیاسی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا تھا کہ ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کے تمام تر ہتھکنڈوں اور رکاوٹوں کے باوجود عمران کیخلاف ہر حربہ آزمائے جانے کے باوجود انتخابات (اگر ہوئے) پی ٹی آئی کے بغیر ناممکن ہی ہونگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران کے استقلال اور غیر متزلزل عزم نے مقتدرین ہی نہیں، ان کے اشاروں و ہدایات پر چلنے والے اداروں، سیاسی مہروں حتیٰ کہ عمران کے مقابل سیاسی لیڈروں اور جماعتوں کی نیندیں اُڑا کر رکھ دی ہیں۔ ان کا کوئی عمران مخالف اقدام کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا۔ الیکشن کمیشن کا انٹرا پارٹی الیکشن کا مطالبہ بھی بظاہر ناکام ہی ہوا ہے کہ گزشتہ ہفتہ یہ مرحلہ بھی تکمیل کو پہنچا، بیرسٹر گوہر خان چیئرمین (قائم مقام) منتخب ہوئے اور الیکشن کمیشن کو انتخابی نتائج فراہم کرنے کیساتھ بلے کے انتخابی نشان کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔ ہماری اس تحریر لکھے جانے تک الیکشن کمیشن گومگو کی کیفیت میں ہے، البتہ عمران اور پی ٹی آئی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور انتخابی مرحلے سے باہر رکھنے کیلئے اکبر ایس بابر کو انٹرا پارٹی الیکشن کیخلاف متحرک کر دیا گیا ہے۔ شنید ہے کہ اکبر ایس بابر الیکشن کمیشن یا عدالت میں پٹیشن فائل کرنے جا رہا ہے۔ فیصلہ سازوں کے منصوبہ کے مطابق الیکشن کمیشن کا انٹرا پارٹی الیکشن کا شوشہ دراصل عمران کو انتخابی پراسس سے باہر رکھنے اور اسے نا اہلی و سزا کے گھیرے میں لانے کے ان متعدد ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے جنہیں عمران اور اس کے وفادار تقریباً ایک برس خصوصاً 9 مئی کے بعد سے بُھگت رہے ہیں۔ فیصلہ سازوں کی دانست میں انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے وہ مائنس ون فارمولے کی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ درحقیقت یہ ایسا ہی ہے؟ انٹرا پارٹی انتخابات کے فوری بعد اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹریٹ اور لاہور میں دفاتر کے تالے کُھل گئے بلکہ پی ٹی آئی کے کھلاڑیوں اور عوام نے عمران کے حق میں کُھل کر محبت کا اظہار کیا اور جشن کا سماں نظر آیا۔ ان حالات میں کیا مقتدرین اس خوش فہمی میں ہی رہیں گے کہ ماضی کی طرح انتخابات ان کی منشاء کے مطابق ہی نتیجہ خیز ہونگے۔ حالات جس رُخ پر جاتے نظر آرہے ہیں، جس طرح 16 ماہ اقتدار کے مزے لُوٹنے والی پی ڈی ایم کے سیاسی دھڑے لاڈلے کو ریاست کی حمایت میں سرگرم دیکھ رہے اور اس پر احتجاج کرتے ہوئے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کر رہے ہیں کیا 8 فروری کے اعلان کردہ الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکے گا۔ صورتحال تو اس وقت کچھ ایسی ہے کہ پیپلزپارٹی، ن لیگ، جے یو آئی اور دیگر سیاسی پارٹیاں و گروہ مقتدرین کی ہمدردی و سپورٹ اور اقتدار میں اپنے حصہ کیلئے بر سرپیکار ہیں، بلکہ ہر طرح کے جوڑ توڑ پر کمر بستہ ہیں۔ پیپلزپارٹی نے تاریخ میں پہلی بار یوم تاسیس بلوچستان میں منایا، صوبے کے قد آور اور الیکٹیبلز کو ساتھ ملایا کہ فیصلہ سازوں کی توجہ حاصل کر سکیں۔ مولانا ڈیزل پے درپے بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں یہاں تک کہ پیپلزپارٹی کے گڑھ لاڑکانہ میں بھی دراڑ ڈالنے کا دعویٰ کر چکے ہیں، سب سے عجیب بات یہ ہے کہ ریاست کی آنکھوں کا تارہ قرار دیئے جانے اور موسمی پرندوں کی سپورٹ سے پنجاب، سندھ، کے پی وغیرہ میں فتح و نصرت کے دعوے کرنیوالے نواز لیگی تازہ ترین صورتحال میں اقتدار کے سنگھاسن کا خواب پورا ہوتا نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی، دانیال عزیز، احسن اقبال کے درمیان نزاعی بیانات، اندرونی انتشار اور سب سے بڑھ کر وزارت عظمیٰ کا سوال خود فیصلہ سازوں کیلئے مشکل ترین مرحلہ بن گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر ن لیگ کیلئے عوام کی عدم مقبولیت (خصوصاً پنجاب میں) اور سرویز و عوامی رائے عمران اور صرف عمران کے حق میں فیصلہ سازوں کیلئے درد سر ہے۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ اصل حکمرانوں نے نواز شریف کو وزیراعظم بنانے سے معذرت کرتے ہوئے متبادل کی تجویز پر زور دیا ہے۔
عمران ریاستی، عدالتی و غیر انسانی جبر کو نہ صرف برداشت کر رہا ہے بلکہ اپنے عزم میں مزید مضبوط و مستحکم نظر آرہا ہے۔ سوموار کو اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ میں اپنے عوام سے بے وفائی نہیں کر سکتا، مرجائوں گا مگر ملک نہیں چھوڑوں گا، الیکشن جب بھی ہونگے پی ٹی آئی ہی فتح مند ہوگی۔ حقیقت یہی ہے کہ عمران پر کتنے ہی مقدمات بنا دیئے جائیں، سزائیں دی جائیں یا اس کی کردار کشی کی جائے، عوام کی اس سے محبت میں مزید اضافہ ہوگا اور جب بھی انتخابی معرکہ ہوگا عوام سینہ سپر ہو کر عمران و پی ٹی آئی کے حق میں آئینگے۔ ان تمام حالات میں کیا فیصلہ ساز اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا چاہیں گے۔ ویسے بھی اب تو جید سیاستدان اور مبصرین اس پر متفق نظر آتے ہیں کہ انتخابات میں التواء ہوگا اور موجودہ سیٹ اپ سے ہی کام چلایا جائیگا۔ بقول ساحر لدھیانوی!
وہ صبح کبھی تو آئے گی
جس صبح کی خاطر جُگ جُگ سے ہم سب مر مر کر جیتے ہیں
جس صبح کے امرت کی دُھن میں ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں
وہ روشن صبح یقیناً آئے گی جب عوام کا حق حکمرانی حقیقت بنے گا۔
٭٭٭