محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے، یہ پورا سلسلہ مختلف محققین ، نفسیاتی ماہرین مذہبی مختلف نظریات و مشاہدات کی روشنی میں تشکیل دیا جارہا ہے جس میں آپ تائید و تنقید کا حق رکھتے ہیں لیکن اس سلسلہ سے جڑے رہنے کے لیے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔ اللہ عزوجل ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھتے ہوئے آگاہی سے علم تک پہنچنے کی توفیق بخشتے ہوئے ماحاصل علم پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں انسانیت کی مخلص خدمت کی توفیق دے،کیونکہ آج کل کا انسان روئے زمین پر تاریخ انسان کے سب سے حیرت انگیز دور سے گزر رہا ہے ، ہوسکتا ہے کہ آئندہ کی سیچویشن اس سے بھی گراں ہو، یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے ، زمیں پر جتنی بھی گزشتہ تہذیبی گزری ہیں ان میں سے سب سے زیادہ سہولت ، کشائش اور سب سے زیادہ ترقی بلاشبہ ہماری تہذیب میں ہے ، لیکن یہ بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ اس قدر ترقی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہونے کے باوجود موجودہ دور کے انسان سے زیادہ پریشان ، غیر محفوظ ، دباو اور اینگزائنٹی کا شکار کوئی اور تہذیب اس سے پہلے نہیں گزری ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس قدر تیز رفتار ترقی کے بعد دنیا امن کا گہوارا بن جاتی مگر ہم نے دنیا کو کیا بنا دیا ہے ، ہر طرف مادہ پرستی دکھائی دیتی ہے، غربت افلاس رنج غم جنگ و جدل کا راج ہے ، مسلمانوں کے زوال اور پستی کی خوفناک گھاٹیاں ، رزق حرام ، زنا کا عام ہونا الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا کا لوگوں کے زہنوں پر قابو پالینا ، موسموں میں غیر فطری تبدیلی ۔۔۔۔ یہ سب کیا ہے ،؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی انسان کو پاگل پن کی طرف لے جارہی ہے ۔ ایسا پاگل پن کہ جس میں مبتلا ہوکر انسان اپنی ہی دنیا کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے ، ہر آدمی نفسیاتی مریض بن کر رہ گیا ہے ، ایک چلتی پھرتی لاش جس کا ایک ہی مقصدہے مزید پیسہ مزید دولت مزید گاڑیاں مزید کاروبار جس کے نتیجے میں ڈپریشن ٹینشن اور اینگزائٹی کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں ، اور ہر انسان اس مرض میں مبتلا ہوکر زہنی امراض کے معالجین کے سامنے اپنی زندگی کی بھیک مانگتے نظر اتا ہے ، جو لوگ نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں وہ زندگی کی دوڑ سیباہر کردیے جاتے ہیں ، کاروبار میں ناکامی، طویل بیماری، کسی اپنے کی اچانک موت کا نہ بھولنے والا صدمہ ، حد سے بڑھی حساسیت ، محبت میں ناکامی، ملازمت کیرئیر میں ترقی نہ کرسکنے کا خوف ، اعلی تعلیم حاصل نہ ہوپانا، معاشی پریشانیاں اور لمبی غربت اپنی شریک حیات سے زہنی وابستگی نہ ہوپانا شکل و صورت میں کمتری کا احساس، جسمانی معذوری یاعیب، اور اس طرح کے بے شمار خوفناک مسائل سے جن لوگوں کا واسطہ پڑتا ہے ان کی زندگی دوسروں سے بلکل الگ ہوجاتی ہے۔ایسے لوگ جب اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو کچھ نشے کی نیند کی گولیاں اور نفسیاتی دواوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں،کچھ تصوف کو چھتری سمجھتے ہوئے پیروں بابوں عاملوں کے در پر جاکھڑے ہوتے ہیں یا اوارد و وظائف میں کسی آسمانی مدد کے منتظر ہوتے ہیں یاد رہے کہ میں ان سب عوامل کے مخالف نہیں صرف ایک نفسیات عرض کررہا ہوں جس کی تہہ تک پہنچنے اور فلسفہ حیات سمجھنے کے لیے مسلسل اقساط کا مطالعہ ضروری ہے ، زندگی جب بہت بوجھل ہوجائے تو اسے گزارنے کے لیے انسان کسی ایسے فارمولے میتھڈ یا پناہ گاہ کی تلاش میں نکلتا ہے جس سے اسے امید ہوجائے کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ بڑھتا ہوا یہ بوجھل پن دور ہوجائے گا۔ یہ خوش فہمی بہت سالوں قائم رہتا ہے لیکن جب تک انسان کی حقیقت نہ بدلے تب تک یہ سب بے سود ہے انسان اس بات سے بے خبر ہے کہ یہ سب عارضی فائدے ہیں ۔ یعنی صرف وقتی فائدہ دیتے ہیں ، نشہ یا کوئی بھی لت اپنی اصل میں عارضی فائدہ ہے ، اسی طرح ہمیں مساجد میں کثرت ایسے لوگوں کی مل سکتی ہے جو نماز تو پڑھتے ہیں لیکن اسکے باوجود نماز کا اثر انکی روزمرہ زندگی پر بلکل نظر نہیں آئے گا، ایک طویل عرصہ عبادت و ریاضت کرنے کے بعد بھی انکے دل میں حسد بغض کینہ جھوٹ مکاری فریب پایا جائے گا ، وہ نماز کیسی جو انسان کو انسان نہ بنائے۔
نماز ہم پر فرض ہے مگر اس فرض کو محض رسم کے طور پر جائے اور رسمی طور پر ادا کی جائے تو کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ اللہ ہم سے یہی چاہتا ہے؟ ہم اس طرح کیوں نہیں سوچنا چاہتے ہم کامیابی سے اس سوال کو کیوں نظر انداز کردیتے ہیں ؟
نماز کے بعد جھوٹ فریب ریا کاری حسد بغض کینہ عداوت کدورت بے ایمانی چوری زنا فحش خیالی یہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ ہم نفیساتی طور پر نماز کا سہارا بھی ایک نفسیاتی پناہ کے طور پر لے رہے ہیں ،
تصوف ، محبت الہی و محبت رسول ۖ کے میدان میں نکلیں تو ہمیں کئی ایسے معاملات دیکھنے کو ملیں گے جن پر تحقیقی نگاہ دوڑائیں تو نتیجہ وہی نکلے گا جو اوپر بیان کرچکا ہوں، مثلا بڑے بڑے مذہبی اجتماع، عظیم الشان عرس ، عالمانہ جذبات کو سلگا دینے والی تقریریں فیس بک یوٹیوب پر جذبات سے بھرپور انتہائی عالمانہ ویڈیوز میں بیانات ۔ مقصد یہ نہیں کہ میرا کوئی اختلاف ہے ، یہ سب صحیح ہیں لیکن زرا ایک نظر ہم خود پر ڈالیں کہ ہم نے ان سے آج تک کیا حاصل کیا؟ کسی تقریر بیان قول اجتماع عرس سے حاصل ہونے والی تعلیم سے ہم میں کوئی تبدیلی ؟؟؟ 98 فیصد کا جواب ہوگا نہیں !
آج ہم اپنی زندگی پر ایک نگاہ دوڑا کر فیصلہ کریں تو نتیجا یہ نکلے گا کہ ہم صرف پناہ گاہ کی تلاش میں رہے ہیں درحقیقت ہم نے کچھ حاصل نہیں کیا، یہ صرف روحانی تفریح تھی ۔۔۔ !!اسی حثیت ایک آنسو گیس کی سی ہے جو چند سیکنڈ منٹ کے لیے رلاتی ہے پھر پرانی کفیت شروع۔۔
اسی طرح علم خودی میں تصوف و دین کو دیکھیں یہ مراقبے چلے ریاضتیں محافل اجتماع تبلیغی چلے اصلاحی کانفرنسز ہمیں کس طرف جانے کا درس دیتی ہیں ؟ ایک ہی بات ہے نیت ٹھیک نہیں اگر ہمارا مقصد حصول علم نہیں تو سب فضول ہے کچھ حاصل نہیں ، سب رائگانی ہے اور وہ بھی عمر کے لمحات کی ،ہماری نفسیات مقصد انسانیت کو ترک کرکے صرف پناہ گاہوں کی تلاش میں سرگرم عمل ہے جو کہ صرف اپنے اپ کو صریح دھوکہ دیا جارہا ہے مثلا ایک خوشحال شخص پر اچانک آزمائش وقت اگہی اب وہ علم سے ناآشنا ہے بجائے اللہ رسول کا قرب حاصل کرنے کے وہ عارضی سہولتوں کے پیچھے بھاگتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے یہ عارضی فائدہ ہے اسی طرح ہر وقت فلمیں دیکھنے والا شخص مصیبت آنے پر یک دم سے مسجد کا رخ کرلے گا ، عورت یا نشے کے چکر کا حامل شخص جب ناکام ہوکر کسی پیر کی بیعت کرلے گا تو خود کو صوفی یا فقیر سمجھنا شروع کردے گا ، محفل سماع میں عارضی وجد خود پر لاگو کرلے گا ، یہ سب فرار ہیں حقیقت سے ۔ اسی طرح کچھ لوگ خود کو شدید محنت میں غرق کرلیتے ہیں اور صرف کام کے ہوجاتے ہیں۔ دن رات کام کرتے ہیں اگر مقصد نیک اور سب کی بھلائی ہو تو بہت اعلی لیکن صرف خود کی زات کے لیے اور مادیت پرستی کے لیے یہ بہت خطرناک نفسیاتی بیماری ہے جو روٹین میں پناہ لیتے ہیں نو سے پانچ کام کرنے والے لوگ۔ یہ لوگ غور و فکر کو دھتکار دیتے ہیں ، صرف اپنی روٹین کو فالو کرتے ہیں ۔ روٹین کا ہونا بری بات نہیں لیکن روٹین کا بچاری کولہو کا بیل کہلاتا ہے ۔
انسان خود کو سمجھے خود کو جانے کہ میں کون ہوں کہاں سے ایا ہوں میرا یہاں آنے کا مقصد کیا ہے میرا رب کون ہے اور مجھ سے کیا چاہتا ہے میرا ڈپریشن کیا ہے ، مجھے سب کچھ پالینے یا کچھ بھی نا ہونے کے باوجود ہر حال میں بے چینی کیوں رہتی ہے مجھے آخر کس چیز کی تلاش ہے ؟
اسی موضوع کو لیکر ہم آگے اپنی اقساط میں ان شا اللہ مفصل رہنماء کریں گے جس سے آپ دیکھیں گے کہ اپ اور میں اس وقت کہاں ہیں !
میں کون ہوں؟ خودی کیا ہے ؟ نفس کیا ہے؟
اپنی پہچان کے لیے جب ہم قرآن کریم کا سہارا لیتے ہیں تو اللہ عزوجل نے دو طرح کیدشمنوں کا زکر کیا ہے ، شیطان کو انسان کا دشمن کہا ہے اور فرمایا جب میں نے نفس کو پیدا کیا تو اپنا سب سے بڑا دشمن پیدا کیا ہے ۔قرآن کریم میں شدت کے ساتھ نفس کے تزکیہ کا حکم ہے ، تزکیہ تب ہی کیا جاسکتا ہے جب آپ اس دشمن کو جان لیں خوب اچھی طرح پہچان لیں، کہ آخر نفس ہے کیا، اس کے کام کیا ہیں، تبھی آپ اس قابل ہوسکیں گے کہ اسے پاک کرسکیں
بنیادی طور پر نفس کے تین حصے ہیں
جسم
حواس خمسہ
زہن
ہم بالترتیب تینوں کا مشاہدہ کریں گے
جسم ایک رونمائی ہے ۔۔ ایک ظاہر ہے ہر جاندار کا وجود اس کے جسم کے ساتھ ہے جسم واحد جرثومے سے بنا ہے ، یہ ایک حیاتیاتی مادہ ہے ۔ جسم ایک زندہ چیز نہیں ، حواس خمسہ موجود نہ ہوں دماغ کام نہ کررہا ہوتو جسم کی اپنی حثیت ایک مردے کی ہے،
جسم کا عقل سے براہ راست کوئی زیادہ تعلق نہیں ، جسم حیوانی ہے اس میں دو خصوصیتیں ہیں ، اول بچائو اور دوئم افزائش نسل یعنی عمل تولید ، جسم صرف بھوک مٹانے اور اپنی پیدوار بڑھانے عمل تولید میں دلچسپی رکھتا ہے ، باقی کسی معاملے سے ا سے کوئی غرض نہیں ،
گو کہ انسانی جسم اپنی بناوٹ اور نفاست کے اعتبار سے تمام حیوانی اجسام میں اعلی وجود رکھتا ہے لیکن پھر بھی یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بنیادی طور پر حیوان اور انسان کے جسم میں حیاتیاتی اعتبار سے کوئی زیادہ فرق نہیں ۔
زندگی اسکی سرشت ہے یہ بذات خود زندگی ہے ، اسے دنیا میں بچنے کیلیے خواراک چاہیے اور یہی اسکی اول ترجیع ہے بھوک مٹانے کے بعد یہ خود کو ابدی کرنا چاہتا ہے لازوال ہونا چاہتا ہے ، اس کے لیے اسکے پاس صرف یہی ایک راستہ بچتا ہے کہ وہ اپنی نسل کوجنسی عمل سے آگے بڑھائے ، اسکے لیے یہ کسی لذت کا طلبگار نہیں ، لذت جسم کا نہیں زہن کا مسلہ ہے
جسم کو تو خود کو آگے بڑھانا ہوتا ہے تاکہ زندگی قائم رکھ سکے، یہی اس کی عقل ہے اور اتنا ہی اس کا مقدر ہے ، یہ مٹی سے بنا ہے انسان کو اسی دنیا میں ایک لباس کی صورت میں عطا کیا گیا ہے ، ایک ایسا لباس جو اس انسان کا اپنا نہیں بلکہ اس زمین کا ہے جو موت کے وقت اسی زمین کو واپس کردیا جاتا ہے، جسم نہیں جانتا کہ وہ مردہ ہے یا زندہ اسے کوئی خبر نہیں کہ تکلیف کیا شے ہے ، یہ سب تو اسے زہن بتاتا ہے اس بات کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں
فرض کریں کہ ایک آدمی کو میز پر لٹاکر اس سے اسکا نام بیوی کا نام کاروبار تعلیم کا پوچھا جائے ، جواب ملنے پر اس کے دونوں بازو کاٹ دیے جائیں ، اور پھر وہی سوال کیے جائیں تم کون ہوتو پہلے والا جواب ہی ملے گا ، پھر دوبارہ ٹانگ کان کاٹ کر سوال کیا جائے خواہ دھڑ ہی باقی بچے لیکن جواب وہی پہلے والا ہی ہوگا یعنی تب بھی اس جسم کے بیوی بچے نام کاروبار وہی رہے گا ، اس کا صاف مطلب ہے کہ اس وجود شخصیت کا حصہ ضرور ہے لیکن مکمل شخصیت ہرگز نہیں، پھر وہ کون ہے جو جسم تو نہیں لیکن ہمارا نفس ہے؟ یہ صرف جسم کا وہ حصہ ہے جو تزکیہ نفس کے لیے انسان کو درکار ہے وگرنہ اللہ عزوجل کی حسین ترین مخلوق ہے ، اس کے اندرونی و بیرونی اعضا کی تخلیق کے لیے قیامت تک بھی غور کیاجاتا رہے تو کبھی بھی یہ پتہ نہ چل سکے گا کہ یہ آخر کیا ہے؟
آج سے تقریبا تیس سال پہلے جاکر دیکھیں کہ سائنس اس جسم کوکا کام اتنا نہیں جانتی تھی ، اسکوہلکا لے رہی تھی کہ ہربیماری کے لیے ایک ہی ڈاکٹر ہوا کرتا تھا ، لیکن پھر انسان کو احساس ہوا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے ہر عضو کی سپیشلائزیشن کا دور شروع ہوا حتی کہ دانتوں کے لیے سات سال کی طبی تعلیم لازم قرار پائی، جتنا اندر اترتے چلے جائیں گے اتنا ہی راز الجھتا جائے گا حتی کہ بات کلوننگ سے بڑھ کر میوٹیشن تک جاپہنچی ہے جسم کو تاقیامت پڑھاجاتا رہے گا۔
٭٭٭