امریکہ میں رہائش پذیر مسلم کمیونٹی میں منفی رجحانات بڑھتے جا رہے ہیں، مسلمانوں کی اکثریت اپنے حالات اور مستقبل کے متعلق مایوسی کا شکار دکھائی دے رہی ہے ، جبکہ گزشتہ دنوں چار مسلمانوں کے قتل کا مرکزی ملزم خود بھی مسلمان ہی نکلا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں میں خود ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور عدم برداشت کس حد تک بڑھ گئی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار سوشل پالیسی اینڈ انڈسٹینڈنگ کے جاری کردہ حالیہ سروے کے مطابق واشنگٹن ، ڈیئربورن، مشی گن میں رہائش پذیر مسلم کمیونٹی اپنے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہے، سروے کے دوران مسلم کمیونٹی میں نفرت آمیز واقعات، اور عدم برداشت کا عنصر دیگر مذاہب کی نسبت 26 فیصد پایا گیا ہے،جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کو آپسی اختلافات ختم کرنے پر کس حد تک زور دینا چاہئے۔
سروے کے مطابق دیگر مذاہب میں مسلمانوں کے خلاف نفرت یا عدم برداشت پہلے کی نسبت بڑھی ہے، یہودیوں میں مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت آمیز واقعات اور شدت پسندی کی شرح 17 فیصد رہی ، اسی طرح سفید فام کیتھولک میں نفرت آمیز جرائم کی شرح 28 فیصد تھی اور سفید ایوینجلیکلز میں اسلامو فوبیا کی شرح 30 فیصد کے قریب رہی جوکہ سب سے زیادہ ہے ۔تحقیقی پروجیکٹ مینیجر اور رپورٹ کی شریک مصنف ارم اکرام اللہ نے کہا کہ اقلیتی گروہ اپنی کمیونٹی کے بارے میں منفی دقیانوسی تصورات قابل افسوس ہے ، اس سے دماغی صحت، شرمندگی اور خود کی شناخت پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔مسلم کمیونٹی کے اندر اسلامو فوبیا انڈیکس کی زیادہ شرح بنیادی طور پر سفید فام کے طور پر پہچانے جانے والے مسلمانوں کی وجہ سے تھی۔ انڈیکس میں سفید فام مسلمانوں کا اسکور 40 تھا۔ بروکلین کالج میں انگریزی کے پروفیسر مصطفیٰ بایومی نے اس حوالے سے تجویز پیش کی کہ یہ سفید فام قوت ہے جس نے مسلمانوں کو بھی متاثر کیا ہے، انھوں نے کہا کہ پورا ملک سفیدی پر مرکوز قدامت پسند سیاست کے ذریعے چل رہا ہے، یہ سوچنا بے ہودہ ہے کہ سفید فام مسلمان کسی نظریے کے لیے حساس نہیں ہوں گے،نوجوان مسلمانوں میں بھی اسلامو فوبیا کے اندرونی خدشات ہونے کا زیادہ امکان تھا۔اس چھٹے پول میں مسلمانوں ، یہودیوں اور عام آبادی کے خیالات کا جائزہ لیا گیا ، سروے کے دوران 2ہزار سے زائد افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا 807مسلمانوں، 351 یہودیوں اور ایک ہزار کے قریب عام افراد نے پول میں حصہ لیا۔
سروے کے دوران امریکی مسلمان کی بائیڈن کی کارکردگی اور حکومت کے متعلق رائے بھی لی گئی جس کے دوران 60 فیصد مسلمانوں نے بائیڈن کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا، 2016 میں 60فیصد کے مقابلے میں اس مرتبہ 80 فیصد کے قریب مسلم ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا، سروے میں یہ بھی پتا چلا کہ دیگر تمام اقلیتی عقیدے کے گروپوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، امریکی مسلمانوں کے ڈیموکریٹس کے ووٹرز کی حیثیت سے (46) فیصد یا آزاد (40) فیصد کے طور پر رجسٹر ہونے کا زیادہ امکان ہے، صرف 10 فیصد مسلم ووٹرز ریپبلکن کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔
سروے میں سوشل میڈیا پر امتیازی سلوک کے بارے میں سوال پر 46 فیصد مسلمانوں نے رائے دی کہ انہیں تعصب کا سامنا ہے، جیسے کہ پیغامات کو ہٹا دیا جانا، اکاؤنٹس کو بند کر دینا یا پلیٹ فارم سے نکال دیا جانا۔سروے کے دوران سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ سامنے آئی ہے کہ مسلم کمیونٹی میں اندرونی خلفشار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے ، الیکشن کے دوران مسلم ووٹرز نے اپنے امیدواروں کو نظر انداز کیا جبکہ دیگر مذاہب اور قومیت کے امیدواروں کو ووٹ دے کر کامیاب کرایا اس طرح سے دوہرا معیار پاکستانی و مسلم کمیونٹی کو مستقبل میں مزید نقصان پہنچا سکتا ہے ۔
مسلم کمیونٹی نے نائن الیون کے بعد بہت مشکل سے اپنے تشخص کو دوبارہ بحال کیا ہے، اور سیاسی سرگرمیوں میں عروج حاصل کیا ہے ، اپنی سیاسی حیثیت کو منوایا ہے لیکن اس بڑی کامیابی کو ہم آپسی اختلافات اور خلفشار کی نظر نہیں کر سکتے ہیں ، میری پوری کمیونٹی سے اپیل ہے کہ اپنے ذاتی اختلافات اور خلفشار کو ایک طرف رکھتے ہوئے اتحاد کو پروان چڑھائیں، آپس میں برداشت اور بردباری سے معاملات کو آگے بڑھائیں تاکہ دیگر کمیونٹیز کے لیے ہم ایک مثال قائم کریں نہ کہ خود سے نفرت میں ریکارڈ قائم کریں، اللہ ہم سب کی رہنمائی فرمائے، امین !
٭٭٭