پچھلے کالم میں جو ہم نے شکاگو میں لکھا تھا حالات حاضرہ اور یہاں کی گہما گہمی کے تعلق سے تو یہ کہتے چلیں کہ ہر چند شکاگو میں حیدر آباد دکن کے لوگوں کا پڑائو ہے لیکن وائی دکن کا اثر نہیں ہے۔ کہیں کہیں آپ کو دکنی لہجے میں بات کرتے ہوئے لوگ ملیں گے جب آپ دیون ایونیو جس کے کچھ حصے کا نام محمد علی جناح وے رکھ دیا ہے میں چہل قدمی کرینگے ڈھائی میل کے ایونیو پر آپ کو انڈین پاکستانی اور نیپالی ریستوران اور دوکانیں ملیں گی وہیں پر پورے امریکہ میں مشہور مٹھائی کی دوکان طہورہ ہے جس کے لوگو کو دیکھ کر آپ متاثر ہونگے لیکن اندر جہاں آپ کوئی مٹھائی خریدنے والوں کی لائن ملے گی متاثر نہیں ہونگے، ہمارے دوست نے نیویارک سے طہورہ کے حبشی حلوے کی فرمائش کی تھی کائونٹر پر کھڑے نوجوان سے ہم نے حبشی حلوہ ٹرائی کرنے کو کہا، انہوں نے ایک پیس پلیٹ میں رکھ کردیا۔ منہ میں تھوڑا سا رکھا اور مزہ نہیں آیا، ممکن ہے یہ دکن کا ذائقہ ہو پھر پتیسہ لیا اور منہ میں ڈالتے ہی منہ کا مزہ خراب ہوگیا ہم اسے پتیسہ نہیں کہہ سکتے بس انکی پیکنگ اور مناسب قیمت کی تعریف کرسکتے ہیں ایک دوسری چاٹ کی دوکان پر چاٹ کے لئے گئے چائے کا آرڈر دیا یہ طہورہ کے سامنے ہے جو صاحب چاٹ بنا کر اندر سے پلاسٹک کے ٹیک آئوٹ کنٹینر میں آدھ گھنٹے بعد بنا کر لائے اندازہ ہوا ان کے انداز سے کہ یہ یہاں مجبوری کے تحت کام کر رہے ہیں ،حیدر آباد دکن سے تعلق ہوگا جہاں ہر کوئی خود کو وائی دکن کا قریبی سمجھتا ہے۔ چائے ایک فوم کے چھ اونس کے کپ میں لائے جو اتنا نازک تھا کہ پھٹتے پھٹتے بچا کائونٹر پر کھڑے نوجوان سے کہا اس سے چھوٹے کپ بھی ملتے ہیں ”وہ کہنے لگے صاحب ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے لیکن بھول گئے کہنا کہ ہر چیز کے دام بھی فراخ دلی سے بڑھائے ہیں مزید تبصرہ یا ذکر کرنا بے کا البتہ دیون ایونیو پر نہاری کی نئی ریستوران کھلی ہے نہاری خوش ذائقہ تھی نان پاپڑ کی طرح تھے جو ہمیں پسند ہیں قیمت مناسب لیکن دوسری سبزی اور دال کی ڈش12سے13ڈالر کی بریانی14ڈالر مینو کو پڑھتے جائیں آپ کے ہوش اڑ جائینگے لکھنا بے کار ہے سوائے اس کے کہ سروس اچھی تھی۔ آپ جب بھی کسی بڑے شہر میں جاتے ہیں تو میزبان آپ کو وہاں کے بہترین ریستورانوں میں لے جاتے ہیں۔ شکاگو میں اگر حیدرآباد دکن کے لوگوں کا پڑائو ہے تو نیویارک میں پورا پنجاب اپنی ثقافت اور پیشوں کے ساتھ آباد ہوچکا ہے اور جاری ہے۔ دوسرے نمبر پر بنگلہ دیش آباد ہے لیکن افسوس کوئی ریستوران ایسا نہیں جس کا نام لیا جائے جہاں جاکر لگے کہ ریستوران کے مالکان پیشہ ورانہ سوچ رکھتے ہیں جیسا کہ شکاگو میں نہاری کے لئے کئی مشہور ریستوران ہیں جن میں صابری، عثمانیہ، شاہی اور علی نہاری کے علاوہ ایک غریب نواز ہوٹل(قیمت کے لحاظ سے کم) مشہور ہوچکے ہیں یہاں بندو خان بھی ہے لیکن ذکر کم ہی سنا ہے اب آئیے آپ ہیوسٹن ٹیکساس جہاں کراچی والوں نے پڑائو ڈالا ہے پچھلے پندرہ سال میں وہاں بابر غوری بھی آچکے ہیں سنا ہے وہ اپنی رولس رائیس میں نظر آتے ہیں اور ہر سال کراچی والوں کو حلیم کھلاتے ہیں انکا تعلق سیاست سے پہلے ریستوران پیشے سے تھا وہاں ہیوسٹن میں بندو خان کراچی والے مشہور ہوچکے ہیں اور کئی حضرات سے تعریف بھی سنی ہے بتاتے چلیں کہ اصلی بندو خان یہ ہی ہیں باقی اصلی نہیں ہیں نام استعمال کرتے ہیں۔
پچھلے اتوار پاکستان کا سری لنکا سےT-20فائنل تھا ہر کوئی اپنے گھر میں ریستوران میں اور میدانوں میں بڑی اسکرینوں پر دیکھ رہا تھا۔ اس میچ کی چیدہ چیدہ مایوس کن باتیں لکھتے چلیں سری لنکا نے زبردست کھیل کا مظاہرہ کیا بیٹنگ اور بالنگ کے علاوہ فیلڈنگ میں بھی جو کرکٹ کی بیک پون ہے ہنسی آئی جب شاداب بولے ”کیچیز ہی میچ جتواتے ہیں انہوں نے دو کیچ ڈراپ کرنے پر اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا(ضرورت نہ تھی) وہ بائونڈری لائن پر کئی دفعہ کیچ چھوڑنے کا مظاہرہ کرچکے ہیں ساتھ میں یہ بھی دیکھا گیا کہ دوسرا کھلاڑی انکے آڑے آکر کیچ ڈراپ کراتا ہے اس کا مظاہرہ بھی دو بار دیکھا گیا لیکن بابراعظم لگتا تھا اوپر سے احکام لے رہے ہیں وہ شاداب کی پوزیشن نہیں بدلینگے ویسے بابراعظم نے بھی کم مایوس نہیں کیا۔
مانا کہ مشہور ہے یہCRICKET BY CHANCEیہ بات بچپن میں سنی تھی لیکن اب ایسا نہیں کہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ نے یہ بات غلط ثابت کردی ہے اور یہاں سری لنکا نے بہترین فیلڈنگ کرتے ہوئے بائونڈری لائن پر زیادہ کیچ جو مشکل ترین تھے پکڑے۔
کار دار(پہلے ٹیسٹ کپتان) کے بعد ہماری ٹیم کا وطیرہ رہا ہے خراب فیلڈنگ اور عمران خان کے بعد کوئی کمانڈنگ کپتان نہیں مل سکا ہے آخر ایسا کیوں ہم اسکا ذمہ دار کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ کو ٹہرائینگے جو یا تو کرکٹ سے واقف نہیں اور سفارشی ٹٹو ہیں۔ رمیز راجہ کے بعد ہمیں یقین تھا کہ اب ہماری ٹیم اسٹڈی گیم کھیلے گی اور ایک پیشہ ور قومی ٹیم اور گلی کے لونڈوں لپاڑوں کی ٹیم میں فرق ہوگا۔ پیشہ ورانہ ٹیم بننے کے لئے پاکستانی کھلاڑیوں کو میدان میں، نیوز لینڈ، سری لنکا، انگلینڈ، آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کے کھلاڑیوں کو کھیلتے دیکھ کر اندازہ ہوسکتا ہے کہ میدان میں کیسے جما جاتا ہے شعیب اختر کو یہ حق ہے کہ وہ بابراعظم پر تنقید کریں۔ ”بابراعظم کے لئے بطور بلے باز بھیانک ٹورنامنٹ کا اختتام ہوا۔”
ہمارے بہت سے بلے باز اپنا کھیل کھیلتے ہیں آدھی ٹیم کے آئوٹ ہونے کے بعد کوئی تجربہ کار بلے باز اپنے مقابل سے مل کر نہیں کھیلتا مطلب آخری بال پر رن لینا۔ ہماری ٹیم کے بلے باز پاور پلے سے ناواقف تھے وہ شروع سے ہی سست روی کا شکار رہے۔ فیلڈنگ انکا رویہ یہ تھا کہ نہ کیچ کرینگے اور نہ کرنے دینگے۔” فخرالزماں نے بھشنوئی کا کیچ چھوڑ کر وہ بھی آخر میں ثابت کیا کہ انہیں کوئی دلچسپی نہیں کوئی بلے باز جم نہ سکا۔ راجہ بکسا کے دو کیچیز چھوڑ دیئے۔ اور شاداب نے ایمپائر کے راجہ بکسا کو ناٹ آئوٹ قرار دینے پر مذاق بھی کیا وہ کیا بتانا چاہتے تھے کہ عمران اور مشتاق نے آسٹریلیا جو کیا تھا ایمپائر کے آئوٹ دینے پر عمران نے مشتاق کو اشارہ کیا کہ بلے باز کو واپس پچ پر لایا جائے لیکن ہماری ٹیم اس پوزیشن میں نہیں تھی شاداب کو چاہئے کھیل پر دھیان دے شو بازی نہ کرے۔ اور آخر میں رمیز راجہ کے لئے جب ان سے ہندوستانی صحافی نے ایک سوال کیا کہ ہارنے کے بعد کوئی پیغام اور رمیز راجہ چراغ پا ہوگئے سمجھ سے باہر ہے۔
٭٭٭٭٭