شاید پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ صدر مملکت کا خطاب خالی کرسیوں سے ہوا۔ اگر ماضی میں بھی کسی سر کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے تو شاید میری کم علمی کی وجہ سے میرے علم میں نہیں مگر صدر مملکت کے خطاب کے حوالے سے جو صورتحال پارلیمنٹ میں اس بار دیکھنے کو ملی یہ انتہائی افسوس ناک ہے۔
صدر مملکت کا خطاب ہمیشہ سے پارلیمنٹ کے لیے اہم ترین ہوتا ہے جس میں تمام جماعتیں انتہائی پرامن طور پر سنتے ہیں اور اسے پارلیمانی تاریخ میں انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی کشیدگی کے باعث جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس کے اثرات ہماری پارلیمانی اقدار کو بھی متاثر کررہے ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے مسلم لیگ نون کے رکن پارلیمنٹ خواجہ آصف کی جانب سے جواز پیش کیا گیا کہ صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے اس قسم کا تعصب دیگر جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ روا رکھا گیا اور جس طرح انہوں نے کئی موقعوں پر بطور صدر مملکت اپنا کردار ادا کرنے سے معذرت کی، اسی وجہ سے اراکین پارلیمنٹ میں ان کا خطاب سننے کا بائیکاٹ کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر عارف علوی کی جانب سے حکومت تبدیلی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی پارٹی پالیسی کو ایوان صدر میں خوب نوازتے ہوئے دیکھا گیا اور انہوں نے اسی بنا پر وزیراعظم پاکستان کا خطاب لینے سے انکار کیا مگر ماضی میں جو کچھ ہو چکا ہے اس کا ازالہ صدر مملکت کی جانب سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا حلف لینے کے بعد ازالہ بھی ہو چکا ہے اس لیے پارلیمانی جماعتوں کو اب آگے بڑھتے ہوئے اور پارلیمنٹ کی توقیر کو بحال رکھتے ہوئے اس خطاب کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کے تمام ادارے، سیاسی شخصیات اور کسی حد تک عسکری ادارہ اخلاقی طور پر زوال پذیری کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ سیاستدانوں کی باہمی چپقلش اپنی جگہ مگر اس کا اثر ملک کی معیشت پر بھی پڑ رہا ہے۔
صدر مملکت کے خطاب کے بائیکاٹ سے ملک کا نام روشن نہیں ہوا، بلکہ ہماری پارلیمنٹ کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کا اضافہ ہوا جس کے درحقیقت ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کی وہ پارٹی پالیسی ہے جس نے ایوان صدر کو بھی اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔
اگر اسی روش کو برقرار رکھا گیا پاکستان میں کل کسی کے لئے بھی اپنی عزت بچانا مشکل ہو جائے گا اور ہماری پارلیمانی تاریخ میں ایسے کئی سیاہ دن رقم ہوں گے۔
٭٭٭