مسلم اُمہ کا سب سے اہم ملک سعودی عرب جوکہ مذہبی اعتبار سے تمام مسلم ممالک کے لیے عزت و احترام کا درجہ رکھتا ہے، وقت کی جدیدیت کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس کی رو میں بہتا چلا جا رہا ہے ، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جس ملک میں ہمارے آقائے دو جہاں نے بتوں کو پاش پاش کر کے اللہ تعالیٰ کی واحدنیت قائم کی ، اُسی ملک میں اب بتوں کی پوجا دوبارہ سے شروع کر دی گئی ہے جبکہ سعودی خواتین اس وقت بے راہ روی شکار ہو رہی ہیں ، اور سعودی خواتین کی بڑی تعداد سیکولر ممالک میں معیوب سمجھے جانے والے ”پول ڈانس” کی جانب راغب ہو رہی ہیں جبکہ میڈیا میں ایک رپورٹ کے مطابق سعودی خواتین میں موبائل پر فحش فلمیں دیکھنے کا رجحان سب سے زیادہ ہے۔ سعودی عرب میں جہاں گزشتہ چند سال سے خواتین کو نمایاں آزادیاں دی گئی ہیں، وہیں اب وہاں کی خواتین سیکولر ممالک میں بھی معیوب سمجھے جانے والے ‘پول ڈانس’ میں دلچسپی لیتی دکھائی دیتی ہیں۔’پول ڈانس’ ایک خاص طرح کا ڈانس ہے جو مغربی دنیا یا پھر ہولی وڈ فلموں میں نامناسب انداز میں دکھایا جاتا ہے، تاہم فلموں میں دکھایا جانے والا ڈانس چند ممالک میں حقیقی ہونے والے ڈانس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اگرچہ ‘پول ڈانس’ کو زیادہ تر سیکولر ممالک میں بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، تاہم اس سعودی عرب جیسے ممالک میں بھی اس کے کلب کھل گئے ہیں اور نوجوان لڑکیاں اس میں دلچسپی لیتی دکھائی دیتی ہیں۔اے ایف پی کے مطابق چند سال قبل سعودی عرب میں یوگا کی تربیت لینے اور دینے کو بھی معیوب سمجھاتا جاتا تھا اور ایسا کرنے والی خواتین کو نہ صرف اہل خانہ بلکہ حکام کی طرف سے بھی روکا جاتا تھا لیکن اب سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سمیت دیگر شہروں میں ‘پول ڈانس’ کلب کھل چکے ہیں، جہاں پر پرفارمنس کرنے والی اگرچہ زیادہ تر غیر ملکی خواتین ہیں مگر وہاں تربیت کے لیے سعودی عرب کی نوجوان لڑکیاں آنے لگی ہیں۔ رپورٹ میں ریاض میں ‘پول ڈانس کلب’ چلانے والی میا الیوسف کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ سعودی عرب کی نوجوان لڑکیاں اس جانب زیادہ راغب ہو رہی ہیں۔میا الیوسف کے مطابق چونکہ بظاہر ‘پول ڈانسنگ’ ایک نئی اور دلچسپ چیز ہے، جس میں جسمانی تحرک اہم کردار ادا کرتا ہے، اس لیے نوجوان لڑکیاں اس کی جانب راغب ہو رہی ہیں اور وہ اسے آزمانے کی جستجو کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ سعودی عرب میں چلنے والے ‘پول ڈانس کلب’ میں فلموں میں دکھائے جانے والے ڈانس کی طرح رقص نہیں ہوتا، یہاں پرفارمنس کرنے والی خواتین مکمل لباس میں ہوتی ہیں اور یہ کلب صرف خواتین کے لیے ہی ہیں، ان میں مخالف جنس کے افراد کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی خواتین کو شراب نوشی یا دیگر قسم کا نشہ کرنے کی اجازت ہوتی ہے، اس کے باوجود ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس کی ہمارے اسلامی معاشرے میں اجازت ہے ؟کیا مسلم خواتین کے اس اقدام کو شرعی قرار دیا جا سکتا ہے؟
اگرچہ یہ اعداد و شمار دستیاب نہیں کہ سعودی عرب میں اس وقت کتنے ‘پول ڈانس کلب’ موجود ہیں، تاہم ممکنہ طور پر یہ ریاض اور جدہ کے علاوہ بھی دیگر چند شہروں میں موجود ہو سکتے ہیں اور ان کی تعداد نصف درجن تک ہوسکتی ہے، تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔سعودی حکومت کی خواتین کو اس قدر چھوٹ دینا سمجھ سے بالاتر ہے اور پھر خواتین کے آزادی پر سوا ل اٹھانے اور تنقید کا نشانہ بنانے والے اماموں اور مذہبی سکالر کو بھی سعودی حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے جوکہ افسوسناک عمل ہے۔ مذہبی سکالر یا امام اپنے اسلامی نقطہ نظر کے مطابق کسی بھی اقدام پر اپنی رائے دیتے ہیں چاہے وہ کسی فرد واحد کے خلاف ہو یا حکومت کے خلاف ، اس رائے کا احترام کیا جانا چاہئے ، مسلم امہ کے ممالک میں سعودی عرب کی مثال دی جاتی ہے ، وہاں کی اسلامی اقدار کو اپنانے پر دیگر مسلم ممالک میں قانون سازی تک ہوتی ہے، جبکہ پاکستان میں پی ٹی آئی کی جماعت نے مدینہ کی ریاست کا منشور لے کر اپنی حکومت قائم کی ، یہ الگ بحث ہے کہ وہ اپنے منشور میں کامیاب ہو سکی یا نہیں ، اب سعودی حکومت کو اس جانب توجہ مبذول کرنی چاہئے ، ترقی کے دور میں جدیدیت کو قبول کرنے میں کوئی عار نہیں ہے لیکن اس ترقی اور جدیدیت کا اسلامی اقدار پر اثر انداز ہونا لمحہ فکریہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭