”اوورسیز کا جشن آزادی ”

0
37

”اوورسیز کا
جشن آزادی ”

وطن عزیز سے دور دیار غیر میں اپنی سرزمین کی مٹی کی یاد زیادہ ستانے لگتی ہے ، اکثر نوجوانوں کی دیار غیر میں ملازمت کے دوران اپنے پیاروں کی یاد میں آنسو بہانے کی ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں کیونکہ لوگوں کے جذبات وطن کے ساتھ منسلک ہیں ،یہی وجہ ہے کہ یوم آزادی کے موقع پر پاکستانیوں سے زیادہ اوورسیز پاکستانی جوش و جذبے کے ساتھ اس تہوار کو مناتے ہیں، امریکہ میں اس حوالے سے مختلف پریڈز، میلوں، پرچم کشائی تقاریب کا بڑے جوش و جذبے کے ساتھ اہتمام کیا جاتا ہے جس میں اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے ۔پاکستان 14 اگست کو معرضِ وجود میں آیا تھا اور یہ وطن بہت قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ اس کے حصول میں اَن گنت جانیں قربان ہوئیں، تحریکِ پاکستان کے کارکنان نے اپنا دن رات ایک کرکے اس وطن کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔ اکابرینِ تحریکِ پاکستان ہوں یا عام کارکنان’ سب نے مل کر کام کیا اور ہندوستان کو انگریزوں کے تسلط سے ا?زاد کرایا۔ جس وقت ا?ل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا اس وقت یہ سب خواب سا لگتا تھا کہ مسلمان انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوجائیں گے اورایک الگ وطن حاصل کرلیں گے۔ خوش قسمتی سے مسلمانوں کو بہترین قیادت میسر آئی’ جو اپنے مشن کے ساتھ نہایت مخلص تھی اور جس نے اپنی ساری زندگی اس کاز کیلئے وقف کردی تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے علالت کے باوجود کام جاری رکھا اور کسی کو پتا تک نہ چلنے دیا کہ آپ کی بیماری ا?خری سٹیج تک پہنچ چکی ہے، ان حالات میں بھی ا?پ نے مسلمانوں کا مقدمہ خوب لڑا۔مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبال نے جو خواب دیکھا تھا کہ شمال مغربی ریاستوں میں مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست ہو’ اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کارکنانِ تحریکِ پاکستان نے اَنتھک محنت کی، مصائب کا سامنا کیا’ قید و بند، لاٹھی چارج کے علاوہ مختلف مسائل اور دھمکیوں کا سامنا بھی کیا لیکن ہمت نہیں ہاری۔ سرسید احمد خان سے سر آغا خان تک’ علی برادران ، نواب وقار الملک، مولانا محمود الحسن، مولانا ظفر علی خان ، مہاراجہ محمود آباد، علامہ شبیر احمد عثمانی، حمید نظامی ، حسرت موہانی، حکیم اجمل خان ، مولانا اشرف تھانوی، مولوی عبد الحق، سر سکندر حیات خان ، حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، سردار عبد الرب نشتر، آئی آئی چندریگر، نواب بہادر یار جنگ ، سر ظفر اللہ خان ، چوہدری رحمت علی، سر عبداللہ ہارون اور دیگر کئی اکابرین نے اس تحریک میں حتی المقدور حصہ لیا۔ سیاست’ صحافت’ کالت’ ادب اور سماجی کاموں کے ذریعے سے مسلمانوں میں ایک نئی روح بیدار کی گئی۔ تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ تھیں۔ قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح سب کیلئے ایک مثال تھیں جنہوں نے ساری زندگی تحریکِ پاکستان اور اپنے بھائی کیلئے وقف کردی تھی۔ بی اماں ، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، بیگم جہاں آرا، بیگم محمد علی جوہر، بیگم رعنا لیاقت علی خان ، بیگم شاہ نواز، بیگم شائستہ ، بیگم زری سرفراز، بیگم ہدایت اللہ، بیگم نواب اسماعیل اور بیگم قاضی عیسیٰ نے گراں قدر خدمات دیں اور مسلمان خواتین کے اندر آزادی کے جذبے کو بیدار کیا۔ ایک نوجوان طالبہ فاطمہ صغریٰ نے سول نافرمانی کی تحریک دوران 1946ء میں یونین جیک اتار کر اپنے دوپٹے سے بنا مسلم لیگ کا جھنڈا لاہور سول سیکرٹریٹ پر لہرایا تھا۔یہ آزادی ہمیں بہت مشکل سے ملی ہے’ ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے۔یہ دن اْن قربانیوں کا یاد کرنے کا دن ہے جو ہمارے اسلاف نے ہماری آزادی کیلئے دی تھیں۔ ان کیلئے فاتحہ خوانی کریں۔ اس دن کی مناسبت سے ادبی نشستوں کا اہتمام ہو’مشاعرے ہوں’ مقالے’ مباحثے اور مذاکرے ہوں۔ بچوں کو ایسے ڈرامے اور فلمیں دکھائیں جن سے ان میں جذبہ حب الوطنی بیدار ہو۔ نئی پروڈکشنز تو اس حوالے سے کم ہیں لیکن پرانے ڈرامے ان کو یوٹیوب پر دکھا کر ان کی معلومات میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ چھوٹے کتابچے ان کو دیے جائیں’ اہم قومی شخصیات کی سوانح عمری کہانیوں کی شکل میں بچوں کے لیے شائع کی جاتی ہیں’ وہ ان کو لاکر دیں تاکہ وہ ان کا مطالعہ کریں۔اس وقت ہمارے بچے صرف ٹک ٹاک اور پب جی میں گم ہیں’ انہیں اس دلدل سے نکال کر اصل زندگی کی طرف لائیں،انہیں اسلامی تعلیمات و معاشرتی اقدار’ دو قومی نظریے، پاکستان اور پاکستانیت اور انسانیت سے محبت سکھائیں ،ایک آزاد ملک کا شہری ہونا یقینا بہت بڑی نعمت ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here