دنیا میں دو قسم کے میڈیا ہیں ہر چھوٹے بڑے ملک میں پاکستان کا جو ٹی وی میڈیا ہے وہ کسی اور بات کا پروپیگنڈہ حکومت کے زرخیرید صحافیوں کے ذریعے کرتا رہتا ہے پرانی باتوں سے نتیجہ اخذ کرکے عوام کو گمراہ کرتا رہتا ہے۔ دوسرا سوشل میڈیا ہے جن میں ملک بدر صحافی ہیں پڑھے لکھے پاکستان کی سلامتی چاہنے والے ہیں جو اپنے اپنے یوٹیوب چینل یا فیس بک پر پاکستان کے لئے عاصم منیر سمیت مفید مشورے دیتے رہتے ہیں۔ لیکن لگتا ہے عاصم منیر ان کی زبان نہیں سمجھتے اور جواب میں دو دھاری تلوار کی مانند اپنی پسند کے لوگوں کو جمع کرکے قرآن پاک کی کچھ آیات کا ترجعہ کرتے ہیں جس کا مطلب یہ بتاتے ہیں جو زمین پر فساد کرتے ہیں انہیں سولی پر چڑھا دیا جائے یا ملک بدر کر دیا جائے۔ کاش یہ حافظ قرآن مولانا مودودی یا کسی اور عالم کا تفسیر قرآن کا مطالعہ کرلیتا تو یہ منافقانہ باتیں نہ کرتا۔ اور لوگ جو غلامانہ ذہنیت کے حامل ہیں خاموشی سے بیٹھے نہ سنتے۔ جو ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہوا تھا اور یہ آیات نازل ہوئی تھیں۔ ہم کوئی عالم نہیں اور اس دنیا میں رہتے ہیں قرآن کو پوری طرح سمجھنے کے لئے تفسیر پڑھنے کی اشد ضرورت ہے صرف ترجعہ پڑھنا کافی نہیں جو انہیں کسی جاہل ابن الوقت نے لکھ کر دیا تھا اور نہ ہی٢٤کروڑ عوام کا فرد (یہودی اور عیسائی) ہے سب اللہ اور رسول کے احکام اور باتوں پر عمل کرنے والے ہیں دیکھا جائے تو شرپسندی تو جرنیل کر رہے ہیں اپنی طاقت کے زوم میں عوام کو دھمکی دے رہے ہیں ہمیں یہ کہنے میں جھجک نہیں کہ عاصم منیر اول درجے کی منافقت کر رہے ہیں انہیں معلوم ہے عوام کیا چاہتے ہیں اور یہ بھی کہ عمران پاکستان میں عرصے سے پھیلی ہوئی لاقانونیت، ڈاکہ زنی کو روکنے کے لئے کام کر رہا تھا۔ اور اگر وہ فیض حمید کے قریب تھا تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ ملک کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔ اور دیکھا جائے تو بچہ بچہ جان چکا ہے کہ پچھلے دو سال میں ملک کی بربادی میں سوائے چار پانچ جنرلوں کے کسی اور کا ہاتھ نہیں جو بیرونی طاقتوں کے آلہ کار ہیں ان پر تو توہین رسول کا الزام لگنا چاہئے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے ان کے برابر کی طاقت ہو جو ملک کو اپنے ہاتھ میں لے کر اُسے رہنے کے قابل بنا دے اور وہ طاقت عوام نہیں فوج ہی ہے جو ان گندے انڈوں کو نکال پھینکے۔ کسی بھی ملک کی فوج دشمنوں کے بیرونی حملوں کے دفاع کے لئے ہوتی ہے لیکن ہماری فوج نے تو عوام اور اُن لیڈر کو ہی دشمن جان لیا ہے اس لئے وہ انکے مفاد کے خلاف ہے جس کے تحت یہ ملک کے اساسے اور وسائل بیچ چکے ہیں۔ کل ایک اور انکشاف ہوا کہ میڈیا پر ایک سینئر صحافی ابصار عالم آئے اور انہوں نے کھل کر انکشافات کئے عاصم منیر اور موجودہ جرنلوں کے لئے اُن کے مخالفوں کے بارے میں جن میں فیض حمید اور عمران پیش پیش تھے۔ وہ بڑی اداکاری سے یہ سب کچھ بتا رہے تھے تاکہ جنرل فیض حمید اور عمران کے خلاف کیس مضبوط بن سکے اور عمران کو بھی فوجی عدالت میں لا کر فیصلہ سنایا جائے جس کی تفصیل عوام کو نہیں معلوم ہوگی۔9مئی کے ڈرامے کا بھی پتہ نہیں چلے گا جس کے لئے عمران خان شروع سے کہہ رہا ہے ابصار عالم یہ سب کچھ عاصم منیر کی رضا مندی سے کر رہے تھے رضا کارانہ طور پر ممکن ہے اس میں مسلم لیگ کا ہاتھ ہو جو فوج کے ساتھ مل کر ملک اور قوم کا باجابجا چکی ہے۔ جس طرح بھٹو کی عدالتی پھانسی کی حقیقت بعد میں معلوم ہوئی تھی اسی طرح اس کی بھی حقیقت بعد میں معلوم ہوگی اور وقت کے ساتھ ایک تاریخ بن جائیگی۔ خیال رہے پاکستان میں اب کوئی ایسا صحافی نہیں بچا ہے جو حکومت اور ان جرنیل کی کرتوں پر کھل کر بات کرے۔ اور یہ ثابت ہوچکا ہے چہ معنی ابصار عالم آکر کہانی سنائیں۔ دنیا کے کئی ملکوں میں فوج کے اندر یہ خلفشاری رہتی ہے اور اگر وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں تو درمیان میں مال وزر اور زمین کی تقسیم ہوتی ہے۔
خیال رہے ابصار عالم پر انکے گھر کے قریب اسلام آباد میں قاتلانہ حملہ بھی ہوچکا ہے۔ یہ حملہ کس نے کیا تھا کسی کو نہیں معلوم گوگل نے اُن سے متعلق تمام معلومات چھپا رکھی ہیں آپ نہیں معلوم کرسکتے کہ کتنی مالیت ہے بھائی کون ہیں بیوی بچے اسکول سب پوشیدہ ہے۔
یہ کہنے میں کوئی دلچسپی نہیں کہ الیکٹرانک میڈیا پر شدید پابندی ہے پچھلے دو سالوں سے ابصار عالم نے وزیراطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو تصدیق کے طور پر رکھا ہے اور یہ شخص نہایت ہی ناقابل اعتبار ہے۔ عاصم منیر سے اب کوئی تقع نہیں رکھنا ہے کہ وہ بیرونی طاقت کے نمائندے ہیں اور اپنے طور پر عمران خان اور ان جنرلوں اور اُن سے نیچے کے افسران کو دہشت زدہ کر رہے ہیں عوام کے بعد اور یقیناً اُن کے لئے باجوہ سے بھی زیادہ رقم محفوظ ہے جو ریٹارمنٹ کے بعد ملے گی اور دوسری سہولتیں بھی شامل ہیں۔
14اگست کے دن یوم آزادی منایا گیا۔یہ کیسا یوم آزادی تھا جس میں بولنے پر پابندی ہے خلاف جانے پر جیل اور پسند نہ کرنے پر کورٹ مارشل، جنرلز اپنے مخالفین کو ختم نے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کرینگے یہ ثابت ہوچکا ہے۔ انہیں نہ تو اس ملک سے محبت ہے اور نہ ہی عوام کی فلاح بہبود سے۔ جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں۔ انقلاب لانے کے لئے سب سے پہلے عوام کا سڑکوں پر نکلنا ضروری ہے۔ دوسرے قربانی دیئے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔ اور سب کا ایک قوم بن کر پاکستانی ہونا ضروری ہے۔ کراچی سے اسلام آباد تک دستر خوان بچھے ہیں کوئی بھوکا نہیں مر رہا ہماری مراد بڑی تعداد میں۔ بجلی کا بل کتنا ہی بڑا ہو۔ کوئی بجلی کمپنی کے خلاف نہیں اٹھتا۔ بڑے سکون سے ایک دوسرے سے بات کرکے اپنا غصہ سوشل میڈیا پر اتار لیتے ہیں۔ اور کچھ لوگ تنگ آکر کچے کے اور کچھ بڑے لوگ پکے کے ڈاکو بن جاتے ہیں پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں کی حکومت متند مافیا کے ہاتھ میں ہے عوام کے مدمقابل جن کے پاس کلاشکوف نہیں اور ہوبھی تو وہ اُسے استعمال کرنے سے گریز کرینگے۔ اس لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا امن پسند ملک ہے۔ ہماری تعلیم یافتہ جزیش جو کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ باہر ملکوں میں جابسی ہے۔ اور ملک میں صرف بے چارے رہ گئے ہیں جو عاصم منیر، نوازشریف زرداری کے عقاب میں ہیں۔
بہت سے لوگ جو کناڈا اور امریکہ میں بیٹھے ہیں اُن میں سے بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر عاصم منیر، مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے لئے پروپیگنڈہ کر رکھا ہے اور فیس بک پر آکر عمران کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ اس کی اولاد کو یہودی کی اولاد کہتے ہیں۔ اُسے یہودی کا پٹھو کہتے ہیں۔ یہ معلوم نہیں انہیں ایسا کرنے کے لئے کیا آمدنی ہوتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ عمران کے اچھے کاموں کے ذکر کی بجائے اس کی نوجوانی کے قصّے سناتے رہتے ہیں جیسے وہ عمران کے لنگوٹیا یار ہوں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ کونسے پاکستانی ہیں جو غلط کو غلط نہیں کہہ سکتے جو اپنے ضمیر کی آواز پر نہیں چل سکتے۔
یہاں کیوبا کے غریب عوام اور وہاں کی سوشلسٹ حکومت کے اداروں سے منسلک لوگوں کا کہ اُن کے پاس عیاشی کے لئے کچھ نہیں۔ لیکن اُن کے ضمیر زندہ ہونے کا ثبوت دیکھا کہ چی گوارا جس نے انہیں جنرل بتستہ کی غلامی سے نجات دلائی تھی۔ ملک کے ہر گوشے، گلی، شہر حتیٰ کہ پہاڑوں پر بھی چی گوارا ملے گا۔ پرانے ہوانا میں گیلریز ملینگی جہاں صرف اور صرف انکے محسن جی گوارا کی پینٹنگ، بنیانن، ٹوپیاں ملینگی۔ حالانکہ جی گوارا، ارجینٹنا کا شہری تھا۔ اور اس نے عمران کی طرح اپنی پُر تعیش زندگی چھوڑ کر سائوتھ امریکہ کے پسماندہ ممالک میں سامراج کے خلاف مہم چلائی تھی اور اسی مہم کے دوران اکتوبر9، 1967 میں ایک حملے میں صرف39سال کی عمر میں مارا گیا تھا۔ ایک مہم کے دوران اسکی لیڈری میں 500لوگ مارے گئے تھے۔ فیڈل کاسٹرو نے اسکی یاد میں سانتا کلارا کیوبا میں اس کی یاد میں قد آدم جی گوارا بنا کر کھڑا کیا ہے۔ جہاں باہر سے اور اندرون کیوبا سے لوگ اُسے خراج عقیدت دینے آتے ہیں وہ زندہ ہے عوام کے دلوں میں یادوں میں۔ اگر ہم اپنی تاریخ دیکھیں تو حضرت عمر، حضرت علی اور سب سے بڑے مقام پر رسول اکرم ہیں پھر انکے صحا بائوں میں سے ایک ایوب انصاری، ترکی میں استنبول کے مقام پر عالیشان مزار میں آرام کر رہے ہیں۔ کیا عاصم منیر نے کبھی اسلام کی تاریخ پڑھی یقیناً نہیں!
٭٭٭٭٭