سیاسی اور جرنیلی گماشتے!!!

0
33

نظام قدرت ہے کہ ظالم کی ایک نہ ایک دن پکڑ ضرورہوتی ہے ۔جرنیل ہوں یا سیاسی رہنما،انہوں نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے، ملکر لوٹا ہے۔انکی وجہ سے ملک میں طوائف الملوکی کا دور دورہ ہے، جرائم پیشہ افراد حکمران ہیں۔عوام مہنگائی،اور طبقاتی نظام میں پس کررہ گئی ہے۔فوجی اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت جاری ہے۔اسٹبلشمنٹ ہو یا حکمران ۔ہر طرف ظلم،جبر اور فسطائیت نظر آتی ہے۔قانون طاقتور کے لئے اور کمزور کے لئے مختلف ہے۔سیاسی بازیگر اور انکے کرتوت عوامی غیض و غضب کے سمندر میں بہنے والے ہیں۔گرفتار سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کے جرائم کی لمبی لسٹ ہے۔جس نے اداروں کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ نظم وضبط کے دعویدار فوجی اشرافیہ،قیام پاکستان کے آغاز سے ہی آئین کی پامالی ۔ آئین کی معطلی ،عدالتوں کو مینج کرنا۔حکومتوں میں اکھاڑ بچھاڑ۔سیاسی مداخلت،لینڈ پر قبضے۔بزنس مینوں کا اغوا۔صحافیوں کا قتل۔ کنٹرولڈ میڈیا ،صحافتی مارکیٹنگ ۔دہشت گردی کا نیٹ ورک ۔ہر دور میں فوج کا کرداررہا۔بے لگام جرنیلی مافیا کی کھربوں ڈالرز کی جائدادیں۔ملک میں افراتفری ،جرنیلوں پر بدنما داغ ہیں۔عوام میں بڑھتی نفرت کیوجہ سے فوج نے اندرون اور بیرون ملک اپنی حمایت کے لئیاورسیز پاکستانیوں کو متحرک کیا ہے۔فوج کے اندر عمران خان کی حمایت اورمتشدد نظریات پروان چڑھ رھے ہیں۔فوج اس پر کنٹرول کے لئے اوورسیز میں اپنا بیانیہ بنارہی ہے۔گذشتہ چالیس سالوں میں جرنیلوں اور سیاسی لٹیروں نے اتنی کرپشن کی ہے کہ وہ اتنا پیسہ نہ تو گن سکتے ہیں اور نہ تول سکتے ہیں۔اگر انہیں جیلوں میں ڈالا جائے۔چوکوں اور چوراہوں پراُلٹا لٹکا جائے،لوٹی دولت نکلوائی جائے تو قوم کے ہوش اڑ جائیں۔جتنی کرپشن ان ظالموں نے کی ہے۔ اس سے ملک کنگال ہوگیا ہے۔ٹی وی پر سیاسی گماشتے منافقت کرتے ہیں۔میرٹ کی بات کرتے ہیں۔مگرنوکریاں بیچتے ہیں۔دوغلا پن اور منافقت ہماری سرشت میں شامل ہیں۔قانون کا مسخ شدہ سیاہ چہرہ ،ریینجرز اور پولیس کی اخلاقی گراوٹ کا اندازہ کل کراچی میں ارب پتی کی بہو کے ہاتھوں پانچ افراد کی ہلاکت پر رینجرز اور قانون نافذ کرنے والوں اداروں کیطرف سے مشفقانہ انداز قانونی منہ طمانچہ ہے۔سپریم کورٹ ازخود نوٹس منصفانہ نہیں لیتی۔قاضی فائز عیسی نے قادیانیوں کو تبلیغ کی اجازت دیکر اپنے گلے میں رسوائی کا پھندہ ڈال لیا ہے۔ختم نبوت کے قانون کے ساتھ جو بھی چھیڑ چھاڑ کرئے گا۔ ذلت و رسوائی اسکا مقدر ٹھہرے گی۔ پاکستان کی رولنگ الیٹ میں جاگیردار،سرمایہ دار،کرپٹ اور ملک کو لوٹنے والی اشرافیہ شامل ہے ۔ جو اس ملک کو انجوائے کررہے ہیں۔ عوام بلوں اور مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے۔کسی پارٹی کے پاس قومی ایجنڈا نہیں۔ مستقبل کی پلاننگ نہیں۔لوٹو اور پھوٹو کی پالیسی نے تیس سال ملک کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔سیاسی لیڈرشپ کے پاس نا کوئی ویژن ہے اور نا کوئی پروگرام ۔سیاسی پارٹیوں میں جاگیردار، وڈیرے اور معاشی دہشت گرد مسلط ہیں۔ پاور سیکٹر میں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے رہنما شامل ہیں۔ پاور فل پالیٹیشن شوگر مافیا ہیں۔ جنکا تعلق ان تینوں پارٹیوں میں شامل الیٹ کلاس سے ہے۔آرمی کا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن ہم پارلیمنٹ میں پہنچ کر فوج کا سیاست میں داخلہ بند نہیں کرتے۔ڈھنگ ٹپا پالیسی اپناتے ہیں۔ کسی ادارے میں ریفارمز نہیں لاتے۔ جس کی وجہ سے بار بار فوجی اسٹبلشمنٹ مداخلت کرتی ہے۔
بحیثت قوم ہم انتہائی غیر ذمہ دارہیں ۔بے ایمان، بددیانت اور کرپٹ عناصر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں۔ اور پھر دودھ اور شہد کی نہریں بہنے کا انتظار کرتے ہیں۔ہم ملک کی بربادی۔ دہشت گردی ۔ اور کرپشن کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔جن سیاسی چہروں کو گزشتہ تیس سال سے ووٹ دے رہے ہیں۔وہی اس نظام کی خرابی کے ذمہ دار ہیں۔جو پارٹیاں بدل بدل کر عوام کو بیووقوف بناتیہیں۔جوڈیشری اور بیوروکریسی میں سلیکٹڈ لوگ لائے جاتے ہیں ۔جو میرٹ کا منہ چڑاتے ہیں۔یہ سیاسی پارٹیوں کے جی خضور لوگ ہیں جو سسٹم کی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔یہ فوج کا سیاست میں داخلہ نہیں چاہتے ۔ لیکن اقتدار فوجی بساکھیوں سے حاصل کرتے ہیں۔اقتدار سے بے دخلی کے بعد فوج کے خلاف باتیں بھی کرتے ہیں۔یہ منافقوں کے ٹولے ہیں جنہوں نے ذاتی مفادات کی خاطر پاکستان کو معاشی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ملک میں accountability کسی کی نہیں ہے۔ جرنیل ھوں یا رولنگ کلاس سبھی پیسہ بنارہے ہیں۔ملک کو نقصان پہنچانے والی اشراف اور بدمعاشیہ یہی ہے۔ فوجی ادوار میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا۔سیاچین ہاتھ سے گیا۔ آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ آئین پر عمل نہیں کرتے۔ سیاسی پارٹیوں کے عہدوں پر زیادہ تر جرائم پیشہ افراد مسلط ہیں۔جو ملک میں اصلاحی ،فلاحی اور منصفانہ نظام نہیں چاہتے۔
جب تک Constitutional رولز نہیں بنیں گے ۔پاکستان آگے نہیں بڑھے گا۔نوجوان نسل کو مایوس کردیا گیا ہے۔ رہڑی والا یا کم آمدنی والا اس صورتحال سے بیزار ہے۔ اسکے بچے اچھی تعلم سے محروم۔ صحت سے محروم۔ اچھی خوراک سے محروم ہیں۔ اسٹریٹ کرائم میں بے انتہا اضافہ ھوگیا ہے۔انڈسٹری تیزی سے بند ہورہی ہے۔زراعت تباہ ہوگئی ہے۔مزدور اور کسان رل گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے سواکسی ایک پارٹی میں بھی جمہوریت نہیں۔سیاسی پارٹیوں میں لوگ سلیکٹ کئے جاتے ہیں۔ مالدار، سرمایہ دار اور وڈیرے پارٹیوں کو چلاتے ہیں۔ ورکرز اور مڈل کلاس لوگ تینوں بڑی پارٹیوں میں صرف نعرے لگاتے ہیں۔ جن پارٹیوں میں جمہوریت نہیں۔ وہ پارٹیاں کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ جو لیڈر GHQ یا اسٹبلشمنٹ کی پیداوار ہیں ۔ سول سپرمیسی کی بات کرنے والے اقتدار ملتے ہی،اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے جی ایچ کیو کیطرف دیکھتے ہیں۔ وہ جمہوریت یا انقلاب کی بات کریں،اسی کو سیاسی منافقت کہا جاتا ہے۔انکی میجارٹی نظریہ پاکستان ،آئین پاکستان، اور اسلامی تشخص کے خلاف بیرونی ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں۔چونکہ انکے مفادات ملک اور قوم کے خلاف ہیں۔ پورے ملک کو تینوں پارٹیوں نے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ قوم نے ان تینوں پارٹیوں کو ۔ ہر روز انکے بدلتے بیانئے پر ووٹر تذبذب میں ہیں۔ قوم کو اپنے ملک کے لئے، قوم و ملت کے لئے سوچنا پڑے گا۔ اسلامی تشخص کی بحالی، آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے ایماندار، بے لوث ،محب وطن لوگوں کا انتحاب کرنا پڑے گا۔ جو سیاسی گند کا صفایا کرسکے۔ اقتدار کے بھوکے، بوٹ پالشیئے، دین اور ملک دشمن عناصر سے جان چھڑائی جائے۔ قارئین !۔ صرف جماعت اسلامی ہی ایسی جماعت ہے۔ جو مخلص اور محب وطن لوگوں پر مشتمل ہیں۔ جنہوں نے گزشتہ پہچتر سال سیلاب، طوفان۔ ریلف، تعلیم،صحت اور خدمت خلق میں بہت کام کیا ہے۔ ایکبار جماعت اسلامی کو آزمایا جائے۔ تاکہ پاکستانی کی نظریاتی، جغرافیائی سرحدوں کو مخفوظ بنایا جاسکے۔ مہنگائی پر قابو پایا جاسکے۔ چوروں، ذخیرہ اندوزوں، جرائم پیشہ اور کریمنلز افراد سے جان چھڑائی جاسکے۔ صرف جماعت اسلامی ہی ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔باقی پارٹیوں کو آزما لیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی کے دھرنا پر جنرل فیض کی پیداوار ۔پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا برگیڈ کا کہنا ھے کہ جماعت اسلامی بل دو روپے بڑھوا کر اٹھی ۔ ان عقل کی اندھوں نے نہیں دیکھا کہ حکومت عوامی پریشر اور دبا کی وجہ سے معاہدہ تشکیل پایا ۔ حالانکہ پی ٹی آئی چھ ماہ کے دھرنا کے بعد مایوس گھر لوٹی تھی۔ چار ہفتے میں منظر بدل گیا ہے۔ چار ہفتہ پہلے حکومت قوم کو آئی ایم ایف سے ڈرا رہی تھی۔بجلی کے ٹیرف میں رعایت دینے سے انکاری تھی۔آئی پی پیز کو “مقدس گائے” کا درجہ حاصل تھا۔پی ٹی آئی ارکان عمران خان کی رہائی کے لیے علامتی بھوک ہڑتال پر تھے۔ فضل الرحمان غصے میں تھے کہ مجھے کیوں نہیں جتوایا؟ایم کیو ایم حسب روایت وزارتوں اور کمیٹیوں کے مزے لے رہی تھی۔مگر عوام بجلی کے بلوں کے ہاتھوں نڈھال تھے ۔اس تناظر میں جماعت اسلامی نے دھرنے کا اعلان کردیا۔حکومت نے اسلام آباد میں داخلے سے روکا تو مظاہرین راولپنڈی میں بیٹھ گئے ۔ حافظ نعیم الرحمان نے اپنی تقاریر سے آئی پی پیز کے معاہدوں کو بے نقاب کرنا شروع کیا۔ تقاریر سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوگئیں ، دیکھتے ہی دیکھتے بجلی کے بل اور آئی پی پیز پاکستانی سیاست کا مرکزی موضوع بن گئے حکومت جو ابتدا میں مظاہرین سے بات کرنے کو تیار نہ تھی کو گھٹنے ٹیکنا پڑے ۔ سب سے طاقتور وزیر محسن نقوی سے مظاہرین کے سامنے یہ اعلان کروایا کہ بجلی کی قیمتیں جلد کم ہوں گی، تحریری معاہدہ جس پر حکومت کے دستخط تھے پوری قوم کے سامنے پڑھا گیا۔ وزیراعظم نے اعلان کیا جلد قوم بجلی کے بلوں میں کمی کی خوشخبری سنے گی۔ پنجاب حکومت کو دو ماہ کے لیے 14 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کرنا پڑا۔اب سندھ ، کے پی اور بلوچستان حکومت پر دبا بڑھ رہا ہے کہ آپ بھی ریلیف کا اعلان کریں ۔سندھ اور کے پی حکومت جوابا وفاق اور پنجاب پر چڑھائی کررہی ہیں ۔مگر دبا کم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے ۔وزیر توانائی اویس لغاری جو کہتے تھے کہ بجلی کے بلوں میں کمی کسی طور ممکن نہیں۔ اب روز یقین دلا رہے ہیں کہ بس جلد قیمتیں کم ہونے والی ہیں، وزیراعظم کا ریلیف پیکج بھی تیار ہورہا ہے، آئی پی پیز کا سارا کھیل بھی بے نقاب ہوگیا ہے ۔ آخر کار عوام کو مستقل ریلیف دینا ہی پڑے گا ۔ بجلی کی قیمتیں کم کرکے ہی معیشت کا پہیہ چلایا جاسکتا ہے۔ جماعت اسلامی کو اسٹبلشمنٹ کی بی ٹیم کا طعنہ دینے والے بے شرم منافقوں نے ہمیشہ جرنیلوں کے تلوے چاٹے۔ پیپلز پارٹی،ن لیگ ،پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم جرنیلوں کے بوٹ پالش کرتے رہے۔ جماعت اسلامی اسٹبلشمنٹ کی بی ٹیم کا سن کر ان لوگوں پر ہنسی آتی ہے جو خافظ نعیم الرحمن کو اسٹبلشمنٹ کی بی ٹیم کہتے ہیں۔ یہ کیسی بی ٹیم ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے انتخابات میں کوئی سیٹ نہیں جیت پارہی۔ یہ کس طرح کی بی ٹیم ہے جس کا مرکزی امیر اپنی سیٹ بھی نہیں جیت پایا۔ جس کے صوبائی امرا تک الیکشن ہار جاتے ہیں۔ یہ کسی اسٹبلشمنٹ کی بی ٹیم ہے جو روزانہ دھرنوں کے لئے اپنے کارکناں کے آگے دھرنوں کے اخراجات کے لئے جھولی پھیلا کر دھرنوں کا خرچہ مینج کرنے کے لئے پیسے مانگ رہی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کی یہ بی ٹیم دھرنوں میں ڈی جے کا بندوبست نہیں کرسکتی ۔یہ کیسی بی ٹیم ہے جس کے امیر سے بزور بازو کراچی کی مئیر شپ چھین لی گئی اور وہ کچھ نا کرسکا۔ اسکا ٹریک ریکارڈ ہے کہ ہمیشہ قربانیاں دیتی آئی ہے۔ ظلم اور ناانصافی ہونے پر اداروں کے خلاف کبھی بغاوت نہیں کی۔کبھی توڑ پھوڑ نہیں کی۔ انکے کسی کارکن پر کرپشن،چوری،بددیانتی کا کوئی الزام ہے اور نہ کبھی ملکی خزانہ لوٹا۔
اور نہ ہی اقتدار کے حصول کے لیے جرنیلوں کے تلوے چاٹے۔ جماعت اسلامی کے دھرنوں ،بجلی کے بلوں میں کمی، تنخواہ دار ملازمین پر ٹیکسوں میں کمی کیمطالبات کی منظوری پر سیاسی منافقوں کو پیٹ میں درد ہے۔یہ سیاسی منافقین جی ایچ کیو کے گملوں کی پیداروار ہیں۔آئینہ میں انہیں اپنا چہرہ ہی نظر آتا ہے۔جو لوگ کئی کئی سال پیپلز پارٹی،ن لیگ اور ایم کیو ایم میں رہے۔ آج وہ پی ٹی آئی میں ہیں گیارہ سال خیبر پختونخوا اور پونے چار سال مرکز ، پنجاب، بلوچستان،اور کشمیر میں حکمران رہے ۔ تبدیلی کہیں کھو گئی جو کبھی نہیں ملی۔پی ٹی آئی کے یوتھئیے۔ن لیگ کے پٹواری۔ پی پی پی کے جیالے اور ایم کیو ایم کے دہشت گرد یہ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا انکے لئے پیدا ھوئی ہے ۔ اور ساری دنیاان کی ہے۔
گرانڈز،قبرستانوں یا قیمتی پلانٹس پر قبضے ہوں ۔یا پانامہ لیکس۔ کراچی میں دہشت گردی ہو۔ یا کرپشن ۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نظر آئے گی۔آئی پی پی پیز کی بدمعاشی ہو یا چاروں صوبوں میں انتہا کی کرپشن ۔ ان چاروں جماعتوں کی لیڈرشپ نظر آئے گی۔بیرون ملک پراپرٹیز اور جزیروں کی بات ہو تو وہاں یہی سیاسی بدمعاش جرنیل، ججز اور بیوروکریٹ نظر آئینگے۔یہ لوگ معاشی دہشت گرد ہیں۔جنہوں نے پاکستان کو اس نہج پر پہنچایا ھے۔انکا اختساب کیا جائے اور مجرموں کو ڈی چوک میں پھانسی دیجائے۔ پاکستانی تاریخ میں دو غیرمسلم چیف جج آئے جن کا نام انتہائی عزت و تکریم سے لیا جاتا۔ یہ دونوں جج اپنے منصب سے مخلص اور دیانتدار تھے۔ اس کے برعکس جتنے بھی مسلم چیف جج آئے ۔ انہیں ہر دور میں بددعائیں اور لعنتیں بھجی گئیں۔ کیونکہ یہ بددیانت اور خائن تھے۔ کوئی ایسا جرنیل نہیں آیا جس کا نام عزت و احترام سے لیا جائے۔ سیاسی اور جرنیلی گماشتوں نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ھے۔ان جانوروں سے ملک کو بچانا ہم سب کا فرض عظیم ہے۔ قارئین! پاکستان میں ایسے ایماندار لوگوں کو منتخب کیا جائے جو بدمعاشیہ کو کٹہرے میں کھڑا کرسکے۔ قانون کی حکمرانی قائم کرسکے۔ انصاف کا معاشرہ تشکیل دے سکے۔ مجرموں، اور ظالموں کو چوک میں لٹکا سکے۔ صرف جماعت اسلامی ہی کی قیادت ہے جو ملک کو صیح معنوں میں اسلامی، فلاحی اور نظریاتی مملکت قائم کرسکے۔نوجوانوں کا مستقبل محفوظ کرسکے۔ غریبوں کو مہنگائی اور بوسیدہ نظام سے تخفظ فراہم کرسکے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here