مہنگائی کی بلند ترین سطح!!!

0
92

پاکستان میں اس وقت نو قسم کی اشرافیہ موجود ہیں۔ اشرافیہ کے عناصر اپنے متعلقہ ادارے، سرکاری تنظیموں اور کارپوریشنوں کی پالیسی اور فیصلوں پر موثر طریقے سے اثر انداز ہونے کے قابل ہیں۔ وہ نظام اور اداروں کا اپنے حق میں استعمال کر کے ذاتی فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان میں حکمران اشرافیہ انتہائی منفی کردار ادا کر رہی ہے۔اس کی گرفت پورے معاشرے پر ہے۔ کوئی بھی سرکاری، نیم سرکاری یا نجی ادارہ پاکستان میں ان کی مدد ، اثر و رسوخ کے بغیر آزادانہ طور پر کام نہیں کر سکتا۔ اشرافیہ اور سماجی گروہوں کے درمیان طاقت کا توازن کیسے ہوتا ہے اس کو سمجھنا دلچسپ ہے ۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کیوں ایک ملک محصولات کی وصولی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے، جبکہ بظاہر یکساں صلاحیت کے مالک ادارے دوسری جگہوں پر ریونیو اکٹھا کرنے میں ناکام ہو سکتے ہیں۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اس لئے قوم کو اپنے وسائل میں گزارا کرنا ہو گا۔وزیر خزانہ کا مشورہ صائب ہے۔حالیہ سیلاب سے دس ارب ڈالر کا نقصان ہو ا ہے۔ریاست کو روزمرہ معاملات چلانے کے لئے عالمی اداروں سے قرض کی بھیک مانگنا پڑ رہی ہے۔صورتحال اس درجہ سنگین ہو چکی ہے کہ آرمی چیف امریکہ سے آئی ایم ایف کی ڈیل میں مدد کی درخواست کرتے رہے۔اس سنگینی کی شدت مزید اس طرح بڑھتی ہے کہ پچھلے چار ماہ سے کوئی دن نہیں جاتا جب پٹرول، بجلی،دالوں، سبزیوں ،گیس ، کرایوںاور ٹیکسوں میں سے کسی ایک میں اضافہ نہ ہورہا ہو۔آمدن میں کوئی اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ عام آدمی کی کمر توڑ رہا ہے۔حکومت خون کا آخری قطرہ چوسنے کو تیار نظر آتی ہے تاہم حکمران اشرافیہ عام آدمی کی ان تمام مشکلات سے لاتعلق ہے ۔ان کے لئے ملک کا بحران کی زد میں آنا بڑی بات نہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ معاشی اور سیاسی بحران عام آدمی کو اپنا اختیار مانگنے کی بجائے روٹی کی فکر میں مبتلا رکھتا ہے اور ان کا اقتدار محفوظ رہتا ہے۔ اشرافیہ سے مراد وہ خاص لوگ ہیں جو طاقت، اختیار اور قابلیت کے لحاظ سے باقی شہریوں سے برتر ہوتے ہیں اور کسی بھی ریاست اور معاشرے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ تقریبا ہر معاشرے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا کی دیگر ریاستوں کی طرح یہ پاکستان میں بھی موجود ہے اور غالب کردار ادا کر رہے ہیں۔ایک ملک میں تبدیلی کے لیے عوام متحد ہوجاتے ہیں دوسرے میں حکمران اشرافیہ کااتحاد بن جاتا ہے،دوسرے ممالک جس حکمت سے خود کو سنبھال لیتے ہیں پاکستان میں وہی عمل سیاسی عدم استحکام اور یہاں تک کہ تنازعات کی طرف لے جاتا ہے۔میثاق معیشت کی بات سنتے آ رہے ہیں لیکن جہاں ایک ‘سیاسی تصفیہ’ کرانے والی قوت اپنی ساکھ کھو بیٹھے وہاں میثاق معیشت کیسے ہو،ہو بھی جائے تو کیا ضمانت کہ یہ محکوم طبقات کے استحصال کے لئے استعمال نہ ہو گا۔سیاسی مکالمہ تنازعات کو ختم کر سکتا ہے ۔اس سے پائیدار امن آ سکتا ہے، اصلاحات کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے،ترقی اور غربت میں کمی آ سکتی ہے اس الجھن کا حل یہی ہے کہ عوامی اختیار کو تسلیم کیا جائے، ملک کے فیصلوں میں ان لوگوں کو شامل کیا جائے جو فیصلوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ حکمران اشرافیہ خواہ وہ حکومت ہو یا اپوزیشن ، انتہائی امیر افراد یا خاندانوں کا ایک منتخب گروہ ہے جو واقعی مہنگائی یا بے روزگاری سے متاثر نہیں ہوتے۔ وہ سب دوستی، خاندان یا کاروباری تعلقات کے ذریعے آپس میںجڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے عوام دن بدن غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں، حکمران اشرافیہ نے ہمارے تصور سے بھی زیادہ دولت جمع کر لی ہے۔ چند سال پہلے جاری ہونے والے پانامہ پیپرز اور پنڈورا پیپرز سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ اقتدار میں رہنے والوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ اسے چھپانا مشکل ہو گیا ہے۔ پاکستان میں ایسے افراد کی تعداد سات کروڑ سے زائد ہے ۔حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہدف اکیلے اقتصادی ترقی سے پورا ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اگر ریاستیں قومی آمدنی کی تقسیم میں عدل نہیں کرتیں تو 2030 میں عالمی سطح پر 1.25 ڈالریومیہ ہیڈ کاونٹ 5% اور 7% کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ غربت کے نئے عالمی ہدف کو پورا کرنے کے لیے نہ صرف بد عنوانی کے خاتمے کی ضرورت ہے بلکہ حکمران اشرافیہ اور عام شہریوں کے درمیان آمدن، اختیار اور انصاف تک رسائی کے امور میں جو امتیاز نظر آتا ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اصلاح احوال کی باتیں تو بہت سنتے ہیں لیکن کوئی عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ احتساب کے نام پر کوئی بھی کارروائی عوام کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہے۔طاقتور اور بد عنوانسب ایک ہی ریوڑ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ تمام جماعتیں آپس میں اقتدار کے لئے جھگڑتی ہیں لیکن جامع اور منصفانہ احتساب کا نظام لانے کے لیے کبھی ایک ساتھ نہیں بیٹھیں۔ انہیں بہت کم احساس ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب لوگ عدم مساوات اور ناانصافی کو مزید برداشت نہیں کر سکتے اور پورے نظام کے خلاف بغاوت کر دیتے ہیں۔ ستمبر 2015 میں، اقوام متحدہ نے 2030 تک انتہائی غربت کے خاتمے کے لیے ایک نئے ہدف کا اعلان کیا، یومیہ 1.25 ڈالر سے کم پر آمدنی والے لوگوں کی آمدن میں اضافے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here