اسلام آباد (پاکستان نیوز) روپے کی قدر میں نمایاں کمی کے باوجود برآمد کنندگان کوئی فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران درآمدات پر پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کا تجارتی خسارہ 42 فیصد کم ہو کر 5.3 ارب ڈالر رہ گیا ہے، برآمد کنندگان روپے کی قدر میں نمایاں کمی کے باجود کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے ہیں، تجارتی خسارے میں کمی سے زرمبادلہ کے ذخائر پر بڑھتے ہوئے دباو میں کمی ہوئی ہے، ادارہ شماریات پاکستان نے بتایا ہے کہ جولائی تا ستمبر کے دوران پاکستان کی برآمدات اور درآمدات کے درمیان فرق میں 3.9 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے، پاکستان کی درآمدات 4.1 ارب ڈالر کی کمی کے ساتھ 12.2 ارب ڈالر رہی ہے، تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ حکومت کی جانب سے درآمدی پالیسیوں میں نرمی کیے جانے اور پابندیاں ہٹانے کی صورت میں درآمدات میں اضافہ ہوگا، پاکستان بھاری مقدار میں خام مال درآمد کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ درآمدات پر پابندیاں صنعتی پیداوار کو سکیڑ رہی ہیں، گزشتے ہفتے ورلڈ بینک کے حکام نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ درآمدکنندگان انتہائی ضروری اشیاء کے علاوہ اشیاء کی درآمد میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، چند روز قبل حکومت لگژری اشیاء پر 100 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز کو یورپی یونین کے اعتراضات کی بناء پر رد کرچکی ہے، اس کے علاوہ گزشتہ سال کیے گئے ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کے نتائج منفی برآمد ہوئے تھے، اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا ستمبر کے دوران برآمدات 3.8 فیصد کمی کے ساتھ 6.9 ارب ڈالر رہی، اس دوران برآمدات میں 271 ملین ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی، ٹیکسٹائل لابی ایک بار پھر علاقائی مسابقتی ماحول کے نام پر سبسڈیز حاصل کرنے کیلیے سرگرم ہوچکی ہے، لیکن تاحال حکومت نے لابسٹ کو ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی ہے، واضح رہے کہ دہائیوں سے سبسڈیز ڈکارنے کے باجود ٹیکسٹائل انڈسٹری برآمدی سیکٹر میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے، گزشتہ ایک سال کے دوران روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں تقریبا 60 فیصد کمی ہوئی ہے، جس کا براہ راست فائدہ برآمدی سیکٹر کو پہنچا ہے، لیکن اس کے باوجود ٹیکسٹائل انڈسٹری کوئی نمایاں بہتری دکھانے میں ناکام رہی ہے۔