پاکستانی کرنسی اگلے 12 مہینوں میں کریش کر سکتی ہے ،نومارا

0
166

اسلام آباد(پاکستان نیوز) جاپانی ادارے نومارا نے خبردارکیا ہے کہ پاکستانی کرنسی اگلے 12 مہینوں میں کریش کر سکتی ہے ادارے کا کہنا ہے سو سے زیادہ پوائنٹس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو 64 فیصد تک کرنسی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان کے پوائنٹس 120 ہیں جو کہ خطرناک حد تک زیادہ ہیں ماضی میں امداد کی مد میں اربوں ڈالرز آنا معمول کی بات تھی لیکن اب یہ سہولتیںپاکستان کے لیے ختم ہوچکی ہے، جو کرنسی بحران پیدا ہونے کی بڑی وجہ ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے رواں مالی سال میںسیلاب سے متعلق مالیاتی ضروریات واضح نہ ہونے اور اخراجات میں کمی کی وجہ سے درآمدی کنٹرول کے بعد آمدنی میں کمی کے درمیان زیر التوا 7 اربڈالرکے قرض پروگرام کے نویں جائزے پر باضابطہ بات چیت کے شیڈول کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے پاکستانی کاروباری شخصیات اپنا سرمایہ بیرون ممالک منتقل کردیئے گئے ہیںماہر معیشتڈاکٹرفرخ سلیم نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ جدید دور میں کرنسی بحرا ن کو تمام مالی مسائل کی ماں کہا جاتا ہے کرنسی بحران کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے پاس بیرونی ادائیگیاں کرنے کے لیے انٹرنیشنل کرنسی خصوصی طور پر ڈالرز موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہپاکستانپچھلے کئی سالوں سے بیلنس آف پیمنٹ خسارے کا شکار ہے جسے پورا کرنے کے لییپاکستاناب تک 135 ارب ڈالرز قرض لے چکا ہے اسے پورا کرنے کے لییپاکستان23 مرتبہآئی ایم ایفکے پاس جا چکا ہے اور آج بھیآئی ایم ایفکے سہارے کھڑا رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ فرخ سلیم نے کہا کہ کرنسی کے بحران سیمہنگائیمزید بڑھ سکتی ہے پیٹرولیم مصنوعات سمیت ضروریات زندگی کی اشیا کیقلتپیدا ہو سکتی ہے لیکن کرنسی کے بحران کو ڈیفالٹ سے جوڑنا مناسب نہیں ہےآئی ایم ایف،ورلڈ بینکاور ایشیائی ترقیاتی بینکوں نے کبھی ملکوں کو ڈیفالٹ ڈکلیئر نہیں کیا ہے بلکہ قرض کی مدت بڑھا دی جاتی ہے انہوں نے کہا کہ دسمبر میں ایک اربڈالربانڈز کی ادائیگی ہو رہی ہے، اس کے بعد 2024 میں بانڈز کی ادائیگی ہونی ہے لہذا اگلے 16 مہینے تکپاکستانڈیفالٹ نہیں ہو گا لیکن کرنسی کا بحران ختم کرنا ضروری ہے جس کے لیے سرکاری اداروں کینجکاریبہتر حل ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 190 سرکاری ادارے ہیں جن کینجکاریکر کے ملک میں ڈالرز آ سکتے ہیں اور قرضوں کا 30 فیصد بوجھ کم کیا جا سکتا ہے اس معاملے پر سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ کرنسی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے اگر فورا قابو نہ پایا گیا تو چند مہینوں میں نہیں بلکہ چند ہفتوں میں پاکستانی کرنسی کریش کر سکتی ہے۔

صرف بانڈز کی ادائیگی کر دینا کافی نہیں تقریبا دو سے اڑھائی ارب ڈالرز کم از کم ہر ماہ چاہیے ہوں گے بانڈز ادائیگی کے بعدڈالرذخائر تقریبا سات ارب ڈالرز رہ جائیں گے جن میں سے تین ارب ڈالرزسعودی عربکے ہیں جنہیں استعمال نہیں کیا جا سکتاآئی ایم ایفمارچ سے پہلے قرض نہیں دے گی سوال یہ ہے کہ ان تین مہینوں کے لیے ڈالرز کہاں سے آئیں گے۔

سابق وزیرخزانہڈاکٹرسلیمان شاہ کا کہنا ہے کہپاکستانسے تقریبا 65 ارب ڈالرز درآمدات اور تقریبا 35 ارب ڈالرز قرض کی مد میں ملک سے باہر چلے جاتے ہیں تقریبا 30 ارب ڈالرز کی بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات ہیں اور 31 ارب ڈالربرآمداتسے آتے ہیں یعنی تقریبا 39 ارب ڈالرز کا خسارہ ہے جو کرنسی بحران کی بڑی وجہ ہے موجودہ کرنسی بحران کے شدید ہونے کی سب سے بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے فوریالیکشنکروا کر اس بحران کو کم کیا جا سکتا ہے کیونکہ بیرون ملک پاکستانیوں اور سرمایہ کاروں کو موجودہ وفاقی حکومت پر اعتماد نہیں ہے حکومت نے ڈالرز کیقلتکے باعث ڈیفنس سے متعلقہ سامان کی درآمدات کی ادائیگی بھی روک دی ہے۔

اس معاملے پر کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آفپاکستانکے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ انٹربینک ریٹ سے 30 روپے اوپر گرے مارکیٹ میںڈالرمل رہا ہے اس کا منفی اثرپاکستانکیڈالرذخائر پر پڑا ہے ڈالرز بحران کی بڑی وجہ حکومت کی جانب سے کمپنیوں پر غیر ضروری دبا بھی ہے جس کی وجہ سے لوگ ایکسچینج کمپنیوں کوڈالرنہیں دے رہے اور گرے مارکیٹ میں بیچ رہے ہیں۔

سیالکوٹ چمبر آف کامرس کے سابق صدر میاں نعیم جاوید نے بتایا کہڈالربحران سے کاروباری اورعام آدمی کی زندگی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے کرنسی بحران کا براہ راست تعلقمہنگائیسے ہوتا ہے روپے کی بے قدری سے عام آدمی کی قوت خرید کم ہو رہی ہے اورکاروبارسکڑ رہا ہے اگر کرنسی بحران کم کرنے کے لیے انٹربینک میںڈالر260 روپے تک بڑھا دیا گیا تو بزنس کمیونٹی کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here