اسلام آباد (پاکستان نیوز ) وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ پالیسی ریٹ میں اضافے کے باعث ملکی قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور شرح سود میں ایک فیصد اضافے کے نتیجے میں قرضوں میں6 سو ارب روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے، اگر یہ دعویٰ درست ہے تو مالی سال 2024 کے بجٹ میں سود کی مد میں 2400 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے، یہ انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں کیا گیا ہے، کمیٹی نے اسٹیٹ بینک سے انٹرسٹ ریٹ میں اضافے کا مہنگائی میں کمی سے تعلق کی بابت استفسار کیا تھا، چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں اسٹینڈنگ کمیٹی نے مرکزی بینک کی مہنگائی کو کم کرنے کیلیے انٹرسٹ ریٹ میں اضافے کی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، اور کاروبار کو ہونے والے نقصانات کا حوالہ دیا، وزارت خزانہ کے ایڈیشنل سیکریٹری امجد محمود نے کمیٹی کو بتایا کہ انٹرسٹ ریٹ میں 100 بیسس پوائنٹ کا اضافہ قرضوں پر سودکی لاگت کو 600 ارب روپے تک بڑھا دیتا ہے، واضح رہے کہ پارلیمنٹ نے رواں مالی سال کیلیے 7300 ارب روپے ڈیٹ سروسنگ ادائیگیوں کی منظوری دی تھی، تاہم یہ ادائیگی000 8 ارب روپے سے تجاوز کرچکی ہے، سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ انٹرسٹ ریٹ میں ریکارڈ اضافے کے باوجود مہنگائی میں کمی نہیں ہوئی ہے، پاکستان کو پالیسی میں تبدیلی کیلیے آئی ایم ایف سے بات کرنی چاہیے، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک عنایت حسین نے کہا کہ ملک میں مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے شرح سود بڑھانا پڑی ، مرکزی بینک کے پاس مہنگائی کنٹرول کرنے کیلیے پالیسی ریٹ کے علاوہ کوئی اور ٹول نہیں ہے، مہنگائی میں کمی آئی تو پالیسی ریٹ میں کمی ہو گی، پاکستان کی ڈیولپمنٹ اپڈیٹ کے حوالے سے عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متضاد اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے مانیٹری پالیسی مہنگائی کو کم کرنے میں ناکام رہی ہے، منگل کو جاری کی گئی اس رپورٹ میں موجودہ پالیسی فریم ورک میں موجود تضادات کے بارے میں بتایا گیا ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کا قرضوں کیلیے نجی بینکوں پر انحصار بہت بڑھ گیا ہے، جو کسی بھی وقت بحران کا سبب بن سکتا ہے، اس کو روکنے کا واحد پائیدار حل حکومت کے بنیادی خسارے کو کم کرنا ہے، ورلڈ بینک نے متنبہ کیا کہ پاکستان آئی ایم ایف کا پرائمری بجٹ سرپلس کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہ سکتا ہے، اور پاکستان کا مجموعی بجٹ خسارہ متعین کردہ ہدف 00 69 ارب روپے کے مقابلے میں00 82 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔