اگرچہ ہمارا وجود خدا کی طرف سے ہے، لیکن ہماری زندگی کاسبب والدین ہیں اورہم ان دوہستیوں کے وجودکاشاخہ اور ان کی بینظیر محر و محبت ، تربیت ، عاطفہ کے باغ کا ثمرہیں ۔ انسان جب قدرتمندہو جاتا ہے اور کسی منصب پر پہنچ جاتا ہے تو وہ اپنا بچپنا اور اپنی ناتوانیوں کو بھلا دیتا ہے اور والدین اور انکی زحمات کو بھلا دیتا ہے اور اس سے بڑھ کر کفران اور ناسپاسی کیا ہو سکتی ہے؟اخلاق اور شرافت انسانی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان دو گوہروں کی پاسداری کریں اور ان کی حیات میں احسان اور نیکی کریں اور ان کی وفات کیبعد صدقات اور نیک کام سے یاد کیا کریں ۔
ہمارا وجود والدین کی بدولت ہیاورہماری اولادکاوجودہماریوجودسے پیوستہ ہے۔والدین کیساتھ ہماراسلوک اورانکا احترام اور نیکی کرنا اس بات کا موجب بنتا ہے کہ آیندہ ہماری اولاد بھی حق شناس، قدرداں اور اچھائی کریں ہماری اولادہماریساتھ وہی سلوک اختیارکریگی جس طرح ہم اپنیوالدین سیکیاکریں گے ۔جس طرح خدا کا حق اداکرنا اوراسکی نعمات کی شکرگزاری کرناہماری توانائی سیباہرہیاسی طرح والدین کاحق اداکرنا اور ان کی زحمات کی قدردانی کرنا ایک مشکل کام ہے صرف ان کیسامنے انکساری کیساتھ پہلو جھکائے رکھنا اور تواضع اورفروتنی کیپر کو ان دو فرشتوں کیلئے بچھائے رکھنا ہمارے اختیار میں ہے۔اسکیباوجود ماں باپ کیمقام کی شناخت اور خدا کے ہاں ان کی قدرو منزلت ہونا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ ان کا کچھ حق ادا ہو سکے۔اگر احترام والدین سے مربوط روایات معصومین علیھم السلام کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت اور احترام کا نتیجہ دو قسم کا ہے:1۔ دنیوی نتیجہ۔2۔ اخروی نتیجہ ۔یہاں اختصار کے ساتھ دنیوی اور اخروی نتا ئج کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے دنیوی نتائج میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا :۔ ان اللہ تعالی وضع اربعا فی اربع برک العلم فی تعظیم الا ستاذ وبقا الایمان فی تعظیم اللہ ولذت العیش فی بر الوالدین والنجات من النار فی ترک ایذا الخلق۔خدا وند متعال نے چار چیزوں کو چار چیزوں میں قرار دیا ہے 1۔ علم کی بر کت کو استا د کے احترام میں۔2۔ ایمان کی بقا کو خدا کے احترام میں۔3۔ دنیوی زندگی کی لذت کوو الدین کے ساتھ نیکی کرنے میں۔4۔ جہنم کی آگ سے نجات پا نے کو لوگوں کو اذیت نہ پہچانے میں ۔ ہر با شعور انسان کی یہ کو شش ہو تی ہے کہ اس کی زندگی خوش گوار ہواور اس سے لذت اٹھائے زندگی کی شیرینی اور لذت سے بہرہ مند ہونے کی خاطر مال اولاد خوبصورت بنگلہ گاڑی اور بیوی وغیرہ کی آرزو ہو تی ہے لیکن اگر ہم غور کریں کہ ہمارے پاس یہ ساری چیزیں مہیا ہوں لیکن والدین سے رشتہ منقطع اور ان کی خد مت انجام دینے سے محروم ہو تو وہ زندگی ان لوازمات زندگی کے باوجود شیرین اور لذت آور نہیں ہو سکتی ۔ تم اپنے والدین کے سا تھ نیکی کرو تا کہ کل تمھا رے فرزندان بھی تمہارے ساتھ نیکی کریں۔ والدین کی رضایت میں خدا کی رضایت پورے مسلمانوں کی کو شش یہی رہتی ہے کہ خدا وندعالم ہماری ہر حرکات وسکنات پر راضی ہو(جاری ہے)
اسی لئے طرح طرح کی زحمتوں کے باوجود فروع دین اور اصول دین کے احکام کے پابند ہو جا تے ہیں تا کہ خدا وند علی الا علی کی رضایت جلب کرنے سے محروم نہ رہیں ،لہذاہزاروں روپئے خمس کی شکل میں یا صدقہ اور دیگر وجوہات کو ادا کر کے خداکی خوشنودی حاصل کرنے میں سر گرم رہتے ہیں لیکن اگر ہم اسلام کے اصول وضوابط سے تھوڑی سی آگا ہی رکھتے ہوں تو معلوم جائے گا کہ خدا نے اپنی رضایت وخوشنودی اور ناراضگی کو ماں، باپ کی رضایت اور نارضگی میں مخفی رکھا ہے۔
جیسا کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے :اول ما کتب علی اللوح انااللہ ولاالہ الا انا من رضی عنہ والد ہ فانا عنہ راض ومن سخط علیہ والدہ فانا علیہ ساخطیعنی لوح محفوظ پر سب سے پہلے یہ لکھا گیا ہے :میں اللہ ہوں اور میرے علاوہ کوئی معبود نہیںہے کہ اگر کسی پر اس کے ماں باپ خوش ہو تو میں بھی اس پر خوش ہوں لیکن اگر کسی پر اس کے والدین ناراض ہوں تو میں بھی اس سے ناراض ہوں۔.نیز دو سری روایت میں پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا :رضا الر ب فی رضا الوالدین وسخطہ فی سخطھماخدا کی رضایت ما ں باپ کی رضایت میں پو شیدہ ہے اور ان کی ناراض گی ماں باپ کی نا راضگی میں مخفی ہے ۔
مذ کورہ روایات کے مضمون کے مطابق ایک حکایت بھی ہے جو قابل ذکر ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دن حضرت داود علیہ السلام زبور کی تلاوت کررہے تھے اتنے میں اچانک ایک خاص کیفیت اور حالت آنحضرت (ص) پر طاری ہو ئی اور سوچ کرکہنے لکے کہ شائد دنیا میں مجھ سے زیادہ عبادت گذار کوئی اور نہ ہو کہ جب اس طرح سوچنے لگے تو خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی :
اے داود اگر اتنی عبادت سے اپنے آپ کو دنیا میں عابد تر سمجھتے ہو تو اس پہاڑکے اوپر جاکر دیکھو کہ میرا ایک بندہ سات سو سال سے میری عبادت اور مختصر سی کو تا ہی پر مجھ سے طلب مغفرت کررہا ہے جب کہ وہ کو تا ہی میر ی نظر میں جرم نہیں ہے چنا نچہ جب حضرت داود نے اس پہاڑپر جا کر دیکھا کہ ایک عابد عبادت اور رکوع وسجود کے نتیجے میں بہت ہی کمزور ہوچکا ہے اورنماز میں مشغول ہے تھوڑی دیر جناب داود منتظر رہے جیسے ہی اس عابد نے نماز تمام کی حضر ت داود نے اس کو سلام کیا عابد حضرت کے سلام کے جواب دینے کے بعد پوچھنے لگا کہ تو کون ہے ؟حضرت داود نے فر مایا کہ میں داود ہوں کہ جیسے ہی داود کا نام سنا تو کنے لگا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تو داود ہے تو میں تیر ی ترک اولی کی وجہ سے تیرے سلام کا جواب نہیں دیتا۔ لہذا اس پہا ڑ پر ہی خدا سے معا فی ما نگیں ۔کیو نکہ میں ایک دن گھر کی چھت پررفت آمد کرنے کے نتیجہ میں میری ما ں پر کچھ خاک آپڑی تھی کہ اسی کی معافی کے لئے سات سو سال سے میں اس پہاڑ پر خدا سے طلب مغفرت کررہا ہوں لیکن مجھے معلوم نہیں کہ میری ماں مجھ سے راضی ہو ئی ہے یا نہیں ؟
پس والدین کی عظمت اور بزرگی کی وجہ سے خدانے اپنی رضایت کو ان کی رضایت میں مخفی رکھا ہے اگر خدا کی رضا یت چاہتے ہو تو والدین کے احترام اور حقوق کو ادا کرکے ان کو راضی کریںکہ اس کا نتیجہ خو شنودی الہی کا حصول ہے دنیا وآخرت میں سعادت سے مالا مال ہو نے کا سبب ہے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے والدین کی خدمت اور احترام کی تاکید کرتے ہوئے یوں ذکر فرمایا ہے :ویجب للوالدین علی الولد ثلا ثہ اشیا شکر ہما علی کل حال وطاعتھما فیما یا مر انہ و ینہیا نہ عنہ فی غیر معصی اللہ ونصیحتھما فی السر والعلانی وتجب للولد علی والدہ ثلا ث خصال اختیا رہ لوالدتہ وتحسن اسمہ والمبا لغ فی تا دیبہ فرزند پر ماں ،باپ کے حق میں سے تین چیزیں لازم ہیں:1۔ ہر وقت ان کا شکر گزار ہونا۔2۔ جن چیزوں سے وہ نہی اور امر کرے اطاعت کرنا بشر طیکہ معصیت الہی نہ ہو۔3۔ ان کی موجود گی اور عدم موجود گی میں ان کے لئے خیر خواہی کرنا۔اسی طرح باپ پر اولاد کے تین حق ہیں:1۔ اچھا نا م رکھنا ۔2۔ اسلامی آئین کے مطابق تر بیت کرنا۔3۔ ان کی تربیت کیلئے اچھی ماں کا انتخاب کرنا۔
٭٭٭