موت کا اک دن معیّنہے!!!

0
9

آج میرے دو احباب کی موت کی خبر واٹس ایپ پر پڑھی اور دل ماہی بے آب کی صورت تڑپا۔ یادوں کے دریچے سے جھاونکا تو کئی یادوں نے آنکھوں کو پرنم کر دیا۔ میں اپنے ذاتی حوالہ سے ان صدمات پر چند سطور لکھ کر انہیں اپنے احباب کے سا تھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی خبر پیر آف دیول شریف کے بڑے بیٹے جو ان کی وفات کے بعدسجادہ نشین ہوئے وہ میرے نہایت ہی قریبی دوست روح الحسنین معین تھے۔ آپ غزل اور نعت کے شاعر اور شعلہ بیان مقرر تھے۔ صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان اور سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کے والدِ محترم خاقان عباسی مرحوم ان کے مریدین میں سے تھے۔ پہلے ان کا پیر خانہ مری روڈ پر فیض آباد میں تھا جہاں مریدین کی اکثریت ہوتی جو طالبِ دعا ہوتے۔ بعد میں یہ پیرِ خانہ اڈیالہ روڈ راولپنڈی منتقل ہو گیا۔ میں ان دنوں گورڈن کالج راولپنڈی میں انگریزی ادبیات کا پروفیسر تھا۔ جب بھی فرصت دستیاب ہوتی صاحبزادہ معین صاحب سے ملنے چلا جاتا۔ شعر و شاعری، سیاست اور تصوف پر گفتگو ہوتی۔ صاحب زادہ صاحب بھی مجھ سے ملنے میری رہائش گاہ پر کبھی کبھار تشریف لاتے۔ ہم بے تکلف دوست تھے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میں صاحبزادہ معین صاحب سے ملنے جاتا تو معلوم ہوتاوہ کہیں گئے ہوئے ہیں لیکن ان کی ہدایت کے مطابق مجھے ان کے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا جاتا کہ وہ جلد ہی تشریف لانے والے ہیں۔ میری آمد کی خبر سن کر پیر صاحب مجھے پیر خانہ بلا لیتے اوراپنے مریدین سے میرا تعارف یہ کہہ کر کراتے کہ مقصود جعفری شاعر اور دانشور ہیں اور اِن کا روحانیت میں بہت بلند مقام ہے۔ میں عاجزانہ عرض کرتا حضور میں تو بند حقیر اور پر تقصیر ہوں۔فرماتے آپ اپنے اشعار سے انسانیت اور عدل و امن کا جو پیغام دیتے ہیں یہی اسلام ہے اور آپ کی اتحاد بین المسلمین کے لیے خدمات قابلِ ستائش ہیں۔بہر حال یہ ان کی ذرہ نوازی تھی۔حقیت تو یہ ہے کہ من آنم کہ من دانم۔ وہ تصوف اور روحانیت پر بے تکان گفتگو کرتے ۔بڑے بڑے دانشور حیرت زدہ رہ جاتے۔ آپ نے فلسف قرآن پر بڑی بصیرت افروز کتاب لکھی۔ آپ اکثر فرماتے میں امی ہوں۔ میرا کوئی استاد نہیں ہے۔ میں کسی اسکول میں نہیں پڑھا۔ لیکن یہ مقامِ حیرت ہے کہ وہ علمِ لدنی سے سیراب تھے۔ وہ مسلمانوں میں فرقہ واریت اور کٹھ ملائیت کے سخت خلاف تھے اور اتحاد بین المسلمین کے عظیم داعی تھے۔ یہی وہ باتیں تھیں جو میرے اور ان کے درمیان باعثِ رغبت تھیں۔وہ صاحبِ کشف تھے اور صاحبِ کرامت بھی جس کا میں ذاتی گواہ ہوں۔ایسے عظیم باپ کا سجادہ نشین روح الحسنین معین تھے جو اپنے باپ کی صفات سے متصف تھے۔ پیر صاحب کے چار فرزند تھے۔ وہ مجھ سے اکثر کہتے کہ معین میرا روحانی جانشین ہے اور یہ اس قابل ہے کہ اسلام اور انسانیت کی خدمت کرے۔ انہیں اس بات پر بھی بڑا فخر تھا کہ معین شاعر اور خطیب ہے۔روح الحسنین کی وفاتِ حسرت آیات کی خبر مجھے آج نیو یارک میں ملی۔وہ جون کو فوت ہوئے۔ میں چونکہ ملک سے باہر ہوں اس لئے نمازِ جنازہ میں شریک نہ ہو سکا۔ انشا اللہ وطن واپسی پر برائے فاتحہ خوانی ان کی قبر پر حاضری دوں گا۔ افسوس صد افسوس ایسے پیارے دوستوں کی قبر وں پر فاتحہ خوانی کسی قیامت سے کم نہیں۔ بقولِ مرزا غالب!
مقدور ہوتو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
دوسری جانکاہ خبر آج ملی کہ معروف شاعر جناب سید ضمیر جعفری کے فرزند امتنان ضمیر کا آج بروز جمعہ بتاریخ اگست نیو یارک میں انتقال ہو گیا ہے۔امتنان ضمیر کرکٹ کے نامور کھلاڑی تھے۔ سید ضمیر جعفری مرحوم کے دو بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا میجر جنرل احتشام ضمیر گورڈن کالج میں میرے کالج فیلو اور دوست تھے ۔ وہ سیاسی اور ادبی ذہن رکھتے تھے۔ گورڈن کالج میں Student Union کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے تھے۔ میں اسٹوڈنس یونین میں ایم اے کلاسز کا نمائندہ منتخب ہواتھا۔ جنرل احتشام ضمیر پاکستان کی ISI میں جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں DG( C) تھے ۔ ان کے دور میں حکومت سازی میں جنرل احتشام ضمیر کا خصوصی کردار ہے۔ گویا وہ King Maker تھے۔ ریٹائر منٹ کے بعد وہ روزنامہ جنگ میں ہفت روزہ کالم لکھتے رہے۔ ان کے کالموں کی کتاب ان کی زندگی میں متاعِ ضمیر کے نام سے شائع ہوئی جو انہوں نے مجھے بطورِ تحفہ مجھے دی۔
امتنان ضمیر بھی شاعری کا اعلی ذوق رکھتے تھے۔ چند سال قبل ایک دن چچا ضمیر جعفری نے مجھے فون کیا اور کہا کہ میرے بیٹے امتنان نے لندن میں ایک ایرانی خاتون سے شادی کی ہے۔ اگر آپ آج شام ہمارے گھر آئیں تو آپ کی اس سے ملاقات کرواں تاکہ آپ اس خاتون کے بارے میں کوئی رائے دیں۔ آپ چونکہ ایرانی جدید فارسی جانتے ہیں اس لیے آپ اس سے بات چیت کریں۔ میں اپنی بیگم کے ساتھ ان کے گھر گیا ۔ کافی دیر تک گپ شب رہی۔خاتون نہایت سلیقہ شعار اور تعلیم یافتہ تھیں۔ فارسی تو محترمہ کی مادری زبان تھی ہی وہ انگریزی بھی بہت اچھی بولتی تھیں۔
امتنان ضمیر چند سال قبل نیو یارک میں مقیم ہو گئے تھے۔ یہ کی بات ہے کہ مجھے جنرل احتشام ضمیر نے بتایا کہ امتنان راولپنڈی میں ہسپتال میں داخل ہے اور اس کا گردہ تبدیل کیا گیا ہے۔میں انہیں ہسپتال دیکھنے گیا ۔جنرل احتشام ضمیر بھی وہاں موجود تھے۔ امتنان ضمیر مستقل گردوں کی بیماری کا شکار رہے۔امریکہ میں ان کا Dialysis ہوتا رہا۔ ہم فون پر رابطہ میں رہے۔ چند سال قبل انہوں نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ ان کے بیٹے کی شادی راولپنڈی میں ہو رہی ہے ۔ چونکہ وہ بیمار ہیں اور شادی میں نہیں جا سکتے تو آپ میری جگہ شادی میں شریک ہوں۔ ان کی اس بات نے مجھے رلا دیا۔ اللہ پاک ایسی مجبوری اور بے بسی سے سب کو محفوظ رکھے۔ بیٹے کی شادی میں باپ کا بوجہہ بیماری شریک نہ ہونا ایک جذباتی سانحہ ہے۔ میں نے شادی میں شریک ہوا۔ چونکہ ہمارے ضمیر جعفری کے خانوادہ سے گھریلو مراسم ہیں اس لیے ہم ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔ مجھے امتنان ضمیر کی وفات کا شدید صدمہ ہوا ہے۔ اللہ پاک اس کی مغفرت کرے۔ آمین ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here