باجوہ ڈاکٹرائن(نظریہ) کس کیلئے فائدہ مند!!!

0
124
کامل احمر

کسی بھی لیڈر کا ایک نظریہ ہوتا ہے جیسے انگریزی میںDOCTRINEکہتے ہیں، لیڈر چاہے فوج کا کمانڈر ہو یا وزیراعظم دونوں کو ملک اور عوام کی فلاح وبہبود اور حفاظت کا ادراک کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں کوئی سیاسی رہنما ایک تک پیدا نہ ہوسکا جو ملک اور قوم کو کسی نظریئے کے تحت چلاتا جو بھی کوئی آیا وہ اپنے ذاتی مفاد اور لوٹ مار کو نظریہ بناتا رہا۔ پچھلے35سال میں کسی کا کوئی نظریہ نہ تھا۔ تاریخ گواہ ہے اور پچھلے50سالوں میں پاکستان کی ایک مضبوط فوج کو ہمارے جرنیلوں نے بدنام کیا کہ اسلامی تاریخ کا ایک گھنائونا باب ہے پچھلے ہفتہ جانے والے کمانڈر انچیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس ماہ کی29تاریخ کو چھڑی نئے کمانڈر انچیف جنرل عاصم منیر کے حوالے کرکے روپوش ہوجائیں گے، ان کا نام تاریخ میں کیسے لکھا جائے گا اپنے تمام جرنلوں کی نچلی سطح پر ہونگے یہ ہمارا دعویٰ ہے اگر ان سے پوچھا جائے کہ یہ بتاتے چلیں کہ آپ نے اپنے چھ سالہ دور میں کوئی بھی اچھا کام کیا تو جواب صفر ہوگا بلکہ منفی صفر ہوگا کہ جس طرح انہوں نے ملک کی ساکھ اور سیاسی بحران پیدا کیا آپ سب گواہ ہیں ان کے کارناموں کی طویل فہرست ہے بلکہ اگر ہم کارناموں کی جگہ کارستانیوں کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ باجوہ صاحب کو جب امریکہ نے کمانڈر انچیف بنوایا تو امریکہ بلا کر21توپوں کی سلامی دی جو کبھی ایسا نہیں ہوا۔ اور پھر عمران خان نے انہیں مزید 3سال کی توسیع دی باجوہ صاحب ان چھ سالوں میں سیاست میں بھرپور کردار ادا کرتے رہے اور یہ بھی کہتے رہے ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہر چند کہ عمران خان وزیراعظم تھے لیکن بیرونی سفارت انکے پاس رہی۔ اس سے پہلے کہ ہم ثابت کریں کہ جنرل باجوہ بیرونی طاقتوں کے آلہ کار تھے۔ جو کسی صورت میں پاکستان کو ایک خودمختار ملک نہیں دیکھنا چاہتے یہ طاقتیں1903سے تیسری دنیا کے ممالک کی حکومتیں بدلنے میں ناکام کما چکی ہیں، سائوتھ امریکہ سے مشرق وسطیٰ اور ایران، الجیریا، مصر، عراق، لیبیا اور شام اور یمن کا تہہ وبالا کرنے کی ذمہ دار بھی ہیں۔ پچھلے پچاس سالوں میں امریکہ کی بیرونی پالیسی امریکن نہیں بلکہ ایک چھوٹا ملک بناتا آیا ہے اور خود کو امن کا دعویدار بھی کہتا ہے بات باجوہ کی ہے جو انکا حکم بجا لانے میں طاق تھا اور امریکہ کے کہنے پر (لاکھ کہیں کہ ہم نے مداخلت نہیں کی) عمران خان کی حکومت کو رات کی تاریکی میں اٹھا کر پھینک دیا انکا کہنا تھا جمہوریت کا بول بولا ہو اور باجوہ صاحب نے بے چوں چرا ملک کے تمام بدنام زمانہ چور اور قاتل سیاست دانوں کے حوالے عدلیہ کے حکم سے سونپ دی۔ یہ وہ ہی سیاست داں تھے( زرداری اور نون لیگ اور مولانا فضل الحق) جنہوں نے راحیل شریف کو چیلنج کیا تھا جنگ کرنے کی دھمکی دی تھی آگ لگانے کا پیغام کھلے لفظوں میں دیا تھا۔ اور باجوہ صاحب نے انہیں اقتدار سونپ کر سر آنکھوں پر بٹھایا اس لئے کہ عمران روس چلا گیا تھا اور امریکہ بہادر کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی جب کہ ہندوستان ان کا لاڈلہ اپنی من مانی کر رہا تھا روس سے تعلقات کبھی نہیں بگاڑے تھے اور نہ ہی امریکہ کو کسی قسم کا مالی یا فوجی فائدہ کا حامل بن سکتا تھا۔ یہاں یہ واضح کرتے چلیں کہ امریکہ کو عوام کے مفاد سے زیادہ کارپوریشنز کا مفاد مقدم رہا ہے۔ ایسا نہیں تھا پہلے لیکن صدر ریگن نے مفاد پرست دلالوں(LOBBYSTS)کو بڑھاوا دیا۔ اور آج اگر ہم کہیں کہ امریکہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ملک اور قوم کے ساتھ اس میں ہر قسم کی بیان پیش پیش ہیں جو کسی طور پر عوام کا فائدہ نہیں چاہتیں بلکہ ان کی جیبوں کو خالی کرکے بے حال کر رہی ہیں اس سے اندازہ لگا لیں کہ وہ دوسرے ملکوں کے عوام کے مفاد میں کیوں ہونگے۔
اب آیئے باجوہ صاحب کی23نومبر کی تقریر جو بھاشن بھی ہے، اپنے جرائم کا اقرار بھی ہے اپنی کھرتوتوں کی زمبیل بھی ہے آپ نے سنا ہوگا عمروعیار کی زمبیل جو داستان ہوش ربا کا کردار ہے آپ اس کی جگہ ملک کے چور اور قاتل سیاستدانوں کو بٹھا سکتے اسکے پاس ایک جھولی تھی جس میں وہ تمام چیزیں جو ادھر ادھر ملتی تھیں رکھ لیتا تھا۔ ایک دلچسپ کہانی ہے لیکن باجوہ صاحب کی زمبیل بھی گند ہی گند ہے اور بدبودار تعفن سے بھری ہوئی ہے ملاحظہ ہو انکے جھوٹ اور فریب کا پلندہ(زمبیل) فرمایا کہ2022میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد آنے والی حکومت کو امپورٹیڈ حکومت کہا گیا، حضور آپ بتا دیں عوام کیا کہتے یہ بھی کہا ہار جیت سیاست کا حصہ ہوتی ہے، جناب یہ کرکٹ میچ نہیں تھا اور اگر آپ نے سمجھا بھی تھا تو آپ نے سٹہ لگا کر ہاری ٹیم کو جتوایا تھا۔ ہمارے پاس سیدھے سارے الفاظ ہیں۔باجوہ صاحب نے تسلیم کیا کہ ”فوج کی سیاست میں مداخلت غیر آئینی ہے” اور وہ جانتے ہوئے کرتے رہے وعدہ کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کریگی”مطلب یہ کر سیشن مکمل ہوگیا الزام لگایا کہ ”فوج کے خلاف غیر مناسب الفاظ میں مہم چلائی گئی۔” یہاں ہم واضح کردیں کہ جس نے بھی کہا اور جو کچھ بھی کہا وہ فوج کے خلاف نہیں تھا چار پانچ جرنلوں کی دھاندلیوں کا پردہ چاک کرنا تھا۔ جس میں ارشد شریف کا قتل اور اعظم سواتی کو ننگا کرکے تصویریں دکھانا بھی ہے یہ سب انکی ناک کے نیچے ہوتا رہا یہ بھی کہا”آپ سوچ سکتے ہیں غیر ملکی سازش ہو اور فوج خاموش رہے یہ ناممکن بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔ ” اُف خدایا اس کا کیا جواب دیں فرمایا جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی ہے ” بے فکر رہیں کسی کے بیان سے نہ آپ کے بیان سے(EXCITMENT)پیدا ہوا بس حقیقت سامنے آتی گئی اور بھی آتی اگر ارشد شریف کو دوڑ لگوا کر قتل نہ کیا جاتا فرماتے ہیں بھارتی شہری اپنی فوج(جرنلز) پر بہت کم تنقید کرتے ہیں”بتاتے چلیں کہ وہ ریٹائر ہونے کے بعد کھیتی باڑی کرتے ہیں یا بنارس یاترہ جاتے ہیں اور ہمارے جرنلز؟ ماشاء اللہ ایک بات درست کہی کہ70سال کے دوران فوج کی سیاسی مداخلت ہے یہ کہتے ہوئے وہ سفید جھوٹ بول گئے”سابقہ مشرقی پاکستان فوجی نہیں سیاسی ناکامی ہے کچھ تو شرم کریں ابھی سے یادداشت کھو بیٹھے۔ کہ93ہزار فوجیوں کی جگہ34ہزار فوجیوں نے ڈھائی لاکھ بھارتی فوج کا مقابلہ کیا وہاں بھی بزدل جنرل نیازی نے ہتھیار ڈلوا دیئے۔ جب کہ دو ماہ تک لڑ سکتے تھے جب تک اقوام متحدہ کی فوجیں آجاتیں جب لڑنے کا وقت آیا تو ہتھیار ڈلوا دیئے گئے اور غازی کہلائے باجوہ صاحب ابھی ہم زندہ ہیں بنگلہ دیش کیسے بنا۔ امریکی بحری بیڑہ نہیں پہنچا اور جو بہاری ڈھال بنے انہیں سکتی باہنی کے رحم وکرم پر چھوڑ کر بھاگ آئے اور آج تک انکی تیسری نسل جھوٹ بن کر رہی ہے۔ شرم آتی ہے آپ کو بھول گئے تھے تو کسی سے پوچھ لیتے۔ آپ کا فرمانا ”وثوق سے کہہ رہا ہوں اس وقت پاکستان سنگین معاشی مسائل کا شکار ہے” کیا کہنے آپ کے پورے ملک اور قوم کو دائو پر لگا کر اب مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ باجوہ صاحب نے گلف نیوز کو جو انٹرویو دیا ہے وہ زخم پر نمک چھڑکنے کی مثال ہے جاتے جاتے بھی اعظم سواتی کو بند کردیا شرم آتی ہے؟۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here